Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 68
- SuraName
- تفسیر سورۂ قلم
- SegmentID
- 1629
- SegmentHeader
- AyatText
- {4} ولهذا قال: {وإنَّك لَعلى خُلُقٍ عظيم}؛ أي: عليًّا به، مستعلياً بخُلُقك الذي مَنَّ الله عليك به. وحاصل خُلُقِهِ العظيم ما فسَّرته به أمُّ المؤمنين عائشة رضي الله عنها لمن سألها عنه، فقالت: كان خلقه القرآن. وذلك نحو قوله تعالى: {خُذِ العَفْوَ وأْمُرْ بالعُرْفِ وأعرِضْ عن الجاهلينَ}، {فبما رحمةٍ من الله لِنتَ لهم ... } الآية، {لقد جاءكم رسولٌ من أنفسِكُم عزيزٌ عليه ما عَنِتُم ... } الآية، وما أشبه ذلك من الآيات الدالاَّت على اتِّصافه - صلى الله عليه وسلم - بمكارم الأخلاق، والآيات الحاثَّات على كلِّ خُلُقٍ جميل ، فكان له منها أكملها وأجلها، وهو في كلِّ خصلة منها في الذَّروة العليا، فكان [- صلى الله عليه وسلم -] سهلاً ليناً قريباً من الناس، مجيباً لدعوة مَنْ دعاه، قاضياً لحاجة من استقضاه، جابراً لقلب مَنْ سأله لا يحرمه ولا يردُّه خائباً. وإذا أراد أصحابُهُ منه أمراً؛ وافقهم عليه وتابعهم فيه إذا لم يكن فيه محذورٌ، وإن عَزَمَ على أمرٍ؛ لم يستبدَّ به دونهم، بل يشاورهم ويؤامرهم، وكان يقبلُ من محسنهم، ويعفو عن مسيئهم، ولم يكن يعاشِرُ جليساً إلاَّ أتمَّ عشرةٍ وأحسنها، فكان لا يعبسُ في وجهه، ولا يُغْلِظُ عليه في مقاله، ولا يطوي عنه بشره، ولا يمسك عليه فَلَتات لسانِهِ، ولا يؤاخذه بما يصدُرُ منه من جفوةٍ، بل يُحْسِنُ إليه غاية الإحسان، ويحتمله غاية الاحتمال - صلى الله عليه وسلم -.
- AyatMeaning
- [4] ﴿ وَاِنَّكَ لَ٘عَ٘لٰى خُلُ٘قٍ عَظِیْمٍ﴾ ’’اور بے شک آپ بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہیں۔‘‘ یعنی آپ اس اخلاق کی بنا پر بلند مرتبہ ہیں اور اپنے اس خلق عظیم کی بنا پر فوقیت رکھتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے۔ آپ کے خلق عظیم کا حاصل وہ ہے جس کی تفسیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ r نے اس شخص کے سامنے بیان فرمائی تھی جس نے آپ کے اخلاق کے بارے میں ان سے پوچھا تھا، حضرت عائشہ نے فرمایا:’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل....، حدیث: 746، و مسند أحمد: 91/6) ’’آپ کا خلق ہی قرآن ہے۔‘‘ یہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہے، فرمایا: ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْ٘عُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ﴾ (الاعراف:7؍199) ’’عفو کا رویہ اختیار کیجیے، نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے کنارہ کیجیے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ﴾ (آل عمران:3؍159) ’’اللہ کی مہربانی سے، آپ ان کے لیے نرم خو واقع ہوئے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبہ:9؍128) ’’تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمھاری تکلیف اس پر بہت گراں گزرتی ہے، تمھاری بھلائی کا وہ بہت خواہش مند ہے، اہل ایمان پر بہت شفقت کرنے والا اور ان پر نہایت مہربان ہے۔‘‘ کتنا صحیح مصداق ہیں یہ آیات کریمہ جو آپ کے مکارم اخلاق سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ آیات کریمہ جو ہر قسم کے خلق جمیل کی ترغیب دیتی ہیں۔ وہ ان اوصاف میں کامل ترین اور جلیل ترین مقام پر فائز تھے اور ان خصائل میں سے ہر خصلت کی بلند چوٹی پر تھے۔ آپ بہت ہی نرم برتاؤ کرنے والے اور نرم خو تھے، لوگوں کے بہت قریب تھے، جو کوئی آپ کو دعوت دیتا آپ اس کی دعوت قبول کرتے تھے، جو کوئی آپ سے کسی حاجت کا طلب گار ہوتا آپ اس کی حاجت پوری کرتے تھے بلکہ آپ اس کی دل جوئی کرتے تھے۔ اگر آپ کے اصحاب کو آپ سے کام ہوتا، آپ اس کام پر ان کی موافقت کرتے اور اس بارے میں ان کی بات مانتے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے بچنے کے لیے کہا گیا ہو۔ اگر کسی امر کا عزم فرماتے تو ان کو نظر انداز کر کے ان پر اپنی رائے نہیں تھوپتے تھے، بلکہ ان کے ساتھ مشاورت کر کے ان کی رائے لیتے تھے، ان کے اچھے کام کو قبول کر لیتے اور برائی کرنے والے سے درگزر کرتے تھے، کسی ہم نشین کے ساتھ معاشرت کرتے تو کامل ترین اور بہترین طریقے سے معاشرت کرتے، آپ کبھی اپنی پیشانی پر بل ڈالتے نہ آپ کبھی کوئی سخت بات کہتے، نہ آپ کسی سے منہ موڑتے، نہ آپ اس کی زبان کی لغزش پر گرفت کرتے اور نہ اس کی طرف سے کسی سخت رویے پر مواخذہ فرماتے، بلکہ اس کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتے اور اسے انتہائی حد تک برداشت کرتے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [4]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF