Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
3
SuraName
تفسیر سورۂ آل عمران
SegmentID
206
SegmentHeader
AyatText
{147} ثم ذكر قولهم واستنصارهم لربهم فقال: {وما كان قولهم}؛ أي: في تلك المواطن الصعبة {إلا أن قالوا ربنا اغفر لنا ذنوبنا وإسرافنا في أمرنا}، والإسراف هو: مجاوزة الحد إلى ما حرم، علموا أن الذنوب والإسراف من أعظم أسباب الخذلان وأن التخلي منها من أسباب النصر، فسألوا ربهم مغفرتها. ثم إنهم لم يتكلوا على ما بذلوا جهدهم به من الصبر، بل اعتمدوا على الله، وسألوه أن يثبت أقدامهم عند ملاقاة الأعداء الكافرين، وأن ينصرهم عليهم، فجمعوا بين الصبر وترك ضده، والتوبة والاستغفار والاستنصار بربهم، لا جرم أن الله نصرهم، وجعل لهم العاقبة في الدنيا والآخرة ولهذا قال:
AyatMeaning
[147] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی اس دعا کا ذکر فرمایا جس میں انھوں نے اپنے رب سے فتح و نصرت طلب کی ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ﴾ یعنی ان انتہائی مشکل مقامات پر ان کا یہی قول تھا۔ ﴿اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْ٘فِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا﴾ ’’اے ہمارے رب! ہمارے گناہ اور وہ زیادتیاں جو ہمارے معاملے میں ہم سے سرزد ہوئی ہیں بخش دے۔‘‘ اسراف سے مراد حد سے تجاوز کر کے حرام امور میں داخل ہونا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ گناہ اور اسراف اللہ تعالیٰ کی نصرت اور توفیق کے اٹھ جانے کا سب سے بڑا سبب ہے اور گناہ اور اسراف کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حصول کا سبب ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے گناہوں کی بخشش کا سوال کیا۔ پھر انھوں نے محض اپنی جدوجہد اور اپنے صبر پر ہی بھروسہ نہیں کیا بلکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ دشمن سے مقابلہ ہونے کے وقت انھیں ثابت قدمی سے نوازے اور دشمن کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کرے۔ پس اہل ایمان نے صبر کرنے، صبر کے متضاد امور کو ترک کرنے، توبہ، استغفار اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعا کو ایک جگہ جمع کر دیا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح و نصرت سے نوازا۔ اور دنیا و آخرت میں ان کا اچھا انجام کیا۔ اس لیے فرمایا:
Vocabulary
AyatSummary
[147
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List