Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
65
SuraName
تفسیر سورۂ طلاق
SegmentID
1610
SegmentHeader
AyatText
{6} تقدَّم أنَّ الله نهى عن إخراج المطلَّقات عن البيوت، وهنا أمر بإسكانهنَّ وقدر إسكانهنَّ بالمعروف، وهو البيت الذي يسكنه مثلُه ومثلُها؛ بحسب وُجْد الزوج وعسره، {ولا تُضارُّوهنَّ لِتُضَيِّقوا عليهنَّ}؛ أي: لا تضاروهنَّ عند سكناهنَّ بالقول أو الفعل؛ لأجل أن يمللنَ فيخرجنَ من البيوت قبل تمام العدة، فتكونوا أنتم المخرِجين لهنَّ. وحاصل هذا أنَّه نهى عن إخراجهنَّ ونهاهنَّ عن الخروج، وأمر بسكناهنَّ على وجهٍ لا يحصلُ عليهن ضررٌ ولا مشقَّة، وذلك راجعٌ إلى العرف. {وإن كنَّ}؛ أي: المطلَّقات {أولاتِ حَمْلٍ فأنفقوا عليهنَّ حتى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ}: وذلك لأجل الحمل الذي في بطنها إن كانت بائناً، ولها ولحملها إن كانت رجعيةً، ومنتهى النَّفقة إلى وضع الحمل ؛ فإذا وضَعْنَ حملَهُنَّ؛ فإمَّا أن يرضِعْن أولادهنَّ أو لا، {فإنْ أرْضَعْنَ لكم فآتوهنَّ أجورهنَّ}: المسمَّاة لهنَّ إن كان مسمًّى، وإلاَّ؛ فأجر المثل، {وائْتَمِروا بينكم بمعروفٍ}؛ أي: ليأمر كلُّ واحدٍ من الزوجين وغيرهما الآخر بالمعروف، وهو كلُّ ما فيه منفعةٌ ومصلحةٌ في الدُّنيا والآخرة؛ فإنَّ الغفلة عن الائتمار بالمعروف يحصُلُ فيها من الضَّرر والشرِّ ما لا يعلمه إلاَّ الله، وفي الائتمار تعاونٌ على البرِّ والتَّقوى. ومما يناسب هذا المقام أنَّ الزوجين عند الفراق وقت العدَّة، خصوصاً إذا ولد بينهما ولدٌ، في الغالب يحصُلُ من التنازع والتشاجر لأجل النفقة عليها وعلى الولد مع الفراق الذي لا يحصُلُ في الغالب إلاَّ مقروناً بالبغض، فيتأثَّر من ذلك شيءٌ كثيرٌ، فكلٌّ منهما يؤمر بالمعروف والمعاشرة الحسنة وعدم المشاقَّة والمنازعة وينصحُ على ذلك، {وإن تعاسَرْتُم}: بأن لم يتَّفق الزوجان على إرضاعها لولدها، {فسترضِعُ له أخرى}: غيرها، و {لا جُناح عليكم إذا سلَّمتم ما آتيتم بالمعروف}، وهذا حيثُ كان الولد يقبلُ ثدي غير أمِّه؛ فإنْ لم يقبلْ إلاَّ ثدي أمِّه؛ تعينتْ لإرضاعه، ووجب عليها، وأجْبِرَتْ إن امتنعتْ، وكان لها أجرة المثل إن لم يتَّفقا على مسمًّى. وهذا مأخوذ من الآية الكريمة من حيث المعنى؛ فإنَّ الولد لمَّا كان في بطن أمِّه مدةَ الحمل لا خروج له منه ؛ عيَّن تعالى على وليِّه النفقة، فلما ولد وكان يتمكَّن أن يتقوَّت من أمِّه ومن غيرها؛ أباح تعالى الأمرين؛ فإذا كان بحالة لا يمكن أن يتقوَّت إلاَّ من أمِّه؛ كان بمنزلة الحمل، وتعينت أمُّه طريقاً لِقُوتِه.
AyatMeaning
[6] پیچھے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق یافتہ عورتیوں کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور اس نے طلاق یافتہ عورتوں کو سکونت مہیا کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو معروف طریقے سے سکونت مہیا کرنا مقرر فرمایا اور اس سے مراد ایسا گھر ہے جس میں شوہر کی تونگری یا عسرت کے مطابق ان کے ہم مرتبہ لوگ رہتے ہیں۔ ﴿ وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ۠ لِتُضَیِّقُوْا عَلَ٘یْهِنَّ﴾ یعنی ان کی سکونت کے دوران ان کو اپنے قول و فعل کے ذریعے سے، اس غرض سے تکلیف نہ پہنچاؤ کہ وہ عدت پوری ہونے سے پہلے تنگ آ کر گھروں سے نکل جائیں، اس صورت میں تم ان کو اپنے گھروں سے نکالنے والے شمار ہو گے۔ آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقات کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور مطلقات کو بھی گھروں سے نکلنے سے منع کیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح سکونت فراہم کرنے کا حکم دیا ہے کہ مطلقات کو کوئی ضرر اور مشقت لاحق نہ ہو اور یہ عرف عام کی طرف راجع ہے۔ ﴿ وَاِنْ كُ٘نَّ﴾ ’’اور اگر ہوں وہ۔‘‘ یعنی مطلقات ﴿ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَ٘یْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ ’’حمل والیاں تو وضع حمل تک ان پر خرچ کرو۔‘‘ اگر طلاق بائنہ ہے تو یہ نان و نفقہ اس حمل کی وجہ سے ہے جو اس کے پیٹ میں ہے اور اگر طلاق رجعی ہے تو یہ نفقہ خود اس کے لیے اور اس کے حمل کے لیے ہے۔ نان و نفقہ کی انتہا وضع حمل تک ہے۔ جب وضع حمل ہو جائے تو وہ اپنے بچوں کو دودھ پلائیں گی یا نہیں پلائیں گی ؟ ﴿ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ﴾ ’’پس اگر وہ بچے کو تمھارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو۔‘‘ یعنی طے شدہ اجرت اگر طے کی گئی ہو ورنہ وہ اجرت ادا کی جائے جو اس کے ہم مرتبہ لوگ ادا کرتے ہیں ﴿ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ﴾ یعنی میاں بیوی اور دیگر لوگ ایک دوسرے کو معروف کا حکم دیں اور معروف سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں دنیا و آخرت کی کوئی منفعت اور مصلحت ہو کیونکہ باہم ایک دوسرے کو معروف کی تلقین کرنے میں غفلت برتنے سے ضرر اور شر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نیز باہم معروف کا حکم دینے میں نیکی اور تقویٰ پر تعاون ہے۔ اس مقام پر اس بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اتمام عدت پر، مفارقت کے وقت شوہر اور بیوی کے درمیان، خاص طور پر جب ان دونوں کا مشترکہ بچہ ہو، غالب حالات میں بیوی اور بچے کے نفقہ کے بارے میں جدائی کے ساتھ ساتھ تنازع اور جھگڑا واقع ہو جاتا ہے، جدائی عموماً بغض اور کینہ سے مقرون ہوتی ہے، جس سے بہت سی چیزیں متاثر ہوتی ہیں، لہٰذا دونوں میں سے ہر ایک کو نیکی، حسن معاشرت، عدم مشقت اور عدم منازعت کا حکم دیا جائے اور ان امور میں خیر خواہی کی جائے۔ ﴿ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ﴾ ’’اور اگر تم باہم ضد (اور نااتفاقی) کرو۔‘‘ یعنی اگر دونوں میاں بیوی اس امر پر متفق نہ ہوں کہ (مطلقہ) بیوی اپنے بچے کو دودھ پلائے ﴿ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰى﴾ تو اس مطلقہ بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت بچے کو دودھ پلائے ۔فرمایا: ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْ٘مَعْرُوْفِ﴾ (البقرہ:2؍233) ’’اگر تمھارا ارادہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، جب تم وہ اجرت معروف طریقے سے ادا کر دو جو تم نے طے کی تھی۔‘‘ یہ اس صورت میں ہے جب بچہ اپنی ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ قبول کرتا ہو۔ اگر بچہ اپنی ماں کے سوا کسی عورت کا دودھ قبول نہ کرتا ہو، تو اس کی ماں رضاعت کے لیے متعین ہو گی اور ماں پر رضاعت واجب ہو گئی اور اگر وہ دودھ پلانے سے انکار کرے تو اس کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا، اور اگر دونوں میں اجرت پر اتفاق نہ ہو سکے تو اس کے لیے ہم مرتبہ دودھ پلانے والی کی اجرت ہے۔ یہ حکم اس آیت کریمہ کے معنیٰ سے ماخوذ ہے کیونکہ بچہ جب حمل کی مدت کے دوران اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور وہ تو باہر نہیں آ سکتا، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بچے کے ولی پر نفقہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اور جب بچہ متولد ہوتا ہے اور وہ خوراک اپنی ماں سے یا ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت سے حاصل کر سکتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دونوں صورتیں مباح کر دی ہیں۔ چنانچہ بچہ اگرچہ ایسی حالت میں ہو کہ وہ اپنی ماں کے سوا کہیں سے خوراک نہ لیتا ہوں تو وہ بمنزلہ حمل کے ہے اور اس کی خوراک کے لیے اس کی ماں کو مقرر کیا جائے گا۔
Vocabulary
AyatSummary
[6]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List