Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
65
SuraName
تفسیر سورۂ طلاق
SegmentID
1608
SegmentHeader
AyatText
{1} يقول تعالى مخاطباً لنبيِّه [محمد]- صلى الله عليه وسلم - وللمؤمنين: {يا أيُّها النبيُّ إذا طلَّقْتُم النساءَ}؛ أي: [إذا] أردتم طلاقهنَّ، {فـ}: التمسوا لطلاقهنَّ الأمر المشروع، ولا تبادروا بالطَّلاق من حين يوجد سببه من غير مراعاةٍ لأمر الله، بل {طلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}؛ أي: لأجل عدَّتهن؛ بأن يطلِّقَها زوجها وهي طاهرٌ في طهرٍ لم يجامِعْها فيه؛ فهذا الطلاق هو الذي تكون العدَّة فيه واضحةً بيِّنة؛ بخلاف ما لو طلَّقَها وهي حائضٌ؛ فإنَّها لا تحتسب تلك الحيضة التي وقع فيها الطلاق، وتطول عليها العدَّة بسبب ذلك، وكذلك لو طلَّقَها في طهرٍ وطئ فيه؛ فإنَّه لا يؤمَن حملها، فلا يتبيَّن ولا يتَّضح بأيِّ عدَّةٍ تعتدُّ، وأمر تعالى بإحصاء العدَّة، أي: ضبطها بالحيض إن كانت تحيض، أو بالأشهر إن لم تكن تحيضُ وليست حاملاً؛ فإنَّ في إحصائها أداءً لحقِّ الله، وحق الزوج المطلِّق، وحقِّ من سيتزوجها بعد، وحقِّها في النفقة ونحوها؛ فإذا ضبطت عدَّتها؛ علمت حالها على بصيرةٍ، وعلم ما يترتّب عليها من الحقوق وما لها منها، وهذا الأمر بإحصاء العدَّة يتوجَّه للزوج وللمرأة إن كانت مكلَّفة، وإلاَّ؛ فلوليِّها. وقوله: {واتَّقوا الله ربَّكم}؛ أي: في جميع أموركم، وخافوه في حقِّ الزوجات المطلَّقات. فـ {لا تخرجوهنَّ من بيوتهنَّ}: مدة العدَّة، بل تلزم بيتها الذي طلَّقها زوجها وهي فيه. {ولا يَخْرُجْنَ}؛ أي: لا يجوز لهنَّ الخروج منها، أما النَّهي عن إخراجها؛ فلأنَّ المسكن يجب على الزوج للزوجة لتستكمل فيه عدَّتها التي هي حقٌّ من حقوقه، وأما النهي عن خروجها؛ فلما في خروجها من إضاعة حقِّ الزوج وعدم صونه، ويستمرُّ هذا النهي عن الخروج من البيوت والإخراج إلى تمام العدَّة. {إلاَّ أن يأتينَ بفاحشةٍ مُبَيِّنَةٍ}؛ أي: بأمر قبيح واضح موجبٍ لإخراجها؛ بحيث يُدْخِلُ على أهل البيت الضَّرر من عدم إخراجها؛ كالأذى بالأقوال والأفعال الفاحشة؛ ففي هذه الحال يجوز لهم إخراجُها؛ لأنَّها هي التي تسبَّبت لإخراج نفسها، والإسكانُ فيه جبرٌ لخاطرها ورفقٌ بها؛ فهي التي أدخلت الضرر عليها. وهذا في المعتدَّة الرجعيَّة، وأمَّا البائن؛ فليس لها سكنى واجبةٌ؛ لأنَّ السكنى تبعٌ للنفقة، والنفقة تجب للرجعيَّة دون البائن. {وتلك حدودُ الله}؛ أي: التي حدَّها لعباده وشرعها لهم وأمرهم بلزومها والوقوف معها، {ومن يتعدَّ حدودَ الله}: بأن لم يقف معها، بل تجاوَزها أو قصَّر عنها، {فقد ظلم نفسَه}؛ أي: بخسها حقَّها ، وأضاع نصيبه من اتِّباع حدود الله التي هي الصلاحُ في الدُّنيا والآخرة. {لاتَدْري لعلَّ الله يحدِثُ بعد ذلك أمراً}؛ أي: شرع الله العدَّة، وحدَّد الطلاق بها لحِكَم عظيمةٍ: فمنها: أنَّه لعلَّ الله يحدِثُ في قلب المطلِّق الرحمة والمودَّة، فيراجع من طلَّقها، ويستأنف عشرتها، فيتمكَّن من ذلك مدَّة العدة، أو لعلَّه يطلِّقها لسبب منها، فيزول ذلك السبب في مدَّة العدَّة، فيراجعها؛ لانتفاء سبب الطلاق. ومن الحِكَم أنَّها مدة التربُّص يُعلم براءة رحمها من زوجها.
AyatMeaning
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی e اور اہل ایمان سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ﴾ ’’اے نبی! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو۔‘‘ یعنی طلاق دینے کا ارادہ کرو۔ ﴿فَـــ﴾’’پس‘‘تم ان کو طلاق دینے کے لیے مشروع وجۂ طلاق تلاش کرو، جب طلاق کا سبب مل جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رعایت رکھے بغیر طلاق دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ ﴿ طَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ ’’انھیں ان عدت کے (آغاز) وقت میں طلاق دو۔‘‘ یعنی ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو، وہ اس طرح کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کے طاہر ہونے کی حالت میں، نیز اس طہر میں اس سے مجامعت کیے بغیر طلاق دے۔ پس یہی وہ طلاق ہے جس میں عدت واضح ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے اپنی بیوی کے حیض کی حالت میں طلاق دی تو وہ اس حیض کو شمار نہیں کرے گی جس کے دوران طلاق واقع ہوئی ہے تو اس سبب سے اس پر عدت کا عرصہ طویل ہو جائے گا۔ اس طرح اگر اس نے ایسے طہر میں طلاق دی ہو جس میں مجامعت کی گئی ہو تو اس طرح وہ حمل سے مامون نہ ہو گی، لہٰذا واضح نہ ہو گا کہ وہ کون سی عدت شمار کرےجبکہ اللہ تعالیٰ نے عدت شمار کرنے کا حکم دیا ہے ﴿وَ اَحْصُوا الْعِدَّۃَ﴾یعنی اسے حیض کے ذریعے سے شمار کیا جائے۔ اگر بیوی کو حیض آتا ہے تو عدت کو حیض سے ضبط کرنا ہے اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو اور وہ حاملہ بھی نہ ہو تو اس کی عدت مہینوں کے ساتھ شمار کی جائے گی۔ عدت کے شمار کرنے میں اللہ تعالیٰ، طلاق دینے والے شوہر اور بعد میں نکاح کرنے والے شوہر کے حقوق کی ادائیگی ہے، نیز اس میں مطلقہ کے نان و نفقہ وغیرہ کے حق کی ادائیگی ہے۔ پس جب عدت کو ضبط میں لایا جائے گا تو اس (کے حمل یا حیض وغیرہ) کا حال واضح طور پر معلوم ہو گا اور اس عدت پر مرتب ہونے والے حقوق معلوم ہوں گے۔عدت شمار کرنے کے اس حکم کا رخ شوہر اور بیوی کی طرف ہے، اگر بیوی مکلف ہے، ورنہ اس کے سر پرست کی طرف ہے۔﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ﴾ یعنی اپنے تمام امور میں تقویٰ اختیار کرو اور مطلقہ بیویوں کے حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ﴾ عدت کی مدت کے دوران ان کو اپنے گھروں سے نہ نکالو بلکہ مطلقہ اس گھر میں رہے جس گھر میں شوہر نے اس کو طلاق دی ہے ﴿ وَلَا یَخْرُجْنَ﴾ ’’اور نہ وہ خود نکلیں۔‘‘ یعنی مطلقہ بیویوں کے لیے ان گھروں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ مطلقہ کو گھر سے نکالنے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ بیوی کو گھر فراہم کرنا شوہر پر واجب ہے تاکہ وہ اس گھر میں رہ کر عدت پوری کر سکے، جو شوہر کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اور مطلقہ بیوی کے خود گھر سے نکلنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس کا گھر سے نکلنا شوہر کے حق کو ضائع کرنا اور اس کی عدم حفاظت ہے۔ طلاق یافتہ عورتوں کا خود گھر سے نکلنے یا ان کو نکالے جانے کا حکم عدت کو پورا ہونے تک باقی رہے گا۔ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ یَّ٘اْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ﴾ ’’مگر یہ کہ وہ صریح بے حیائی کریں۔‘‘ یعنی ان سے کوئی واضح طور پر قبیح فعل سرزد ہو جو ان کو گھر سے نکالنے کا موجب ہو اور مطلقہ کو گھر سے نہ نکالنے سے گھر والوں کو ضرر پہنچتا ہو، مثلاً: فحش اقوال و افعال کے ذریعے سے اذیت وغیرہ۔ اس صورت حال میں مطلقہ کو گھر سے نکال دینا، گھر والوں کے لیے جائز ہے، کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو گھر سے نکالنے کا سبب بنی ہے، حالانکہ گھر میں سکونت کی اجازت دینا مطلقہ کی دل جوئی اور اس کے ساتھ نرمی ہے اور اپنے آپ پر اس ضرر کا سبب وہ خود بنی ہے۔ یہ حکم اس مطلقہ کے لیے ہے جو رجعی طلاق کی عدت گزار رہی ہو۔ رہی وہ مطلقہ جس کی طلاق بائنہ ہو، اس کو سکونت فراہم کرنا واجب نہیں کیونکہ سکونت نان و نفقہ کے تابع ہے اور نان و نفقہ صرف اس مطلقہ کے لیے ہے جسے رجعی طلاق دی گئی ہو اور جس کو طلاق بائنہ دی گئی ہو، اس کے لیے نان و نفقہ نہیں ہے۔ ﴿ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ﴾ ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں۔‘‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کر کے مشروع کیا ہے اور ان حدود کا التزام کرنے اور ان پر ٹھہرنے کا ان کو حکم دیا ہے ﴿ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ﴾ ’’اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے۔‘‘ وہ اس طرح کہ وہ ان مقرر کردہ حدود پر نہ ٹھہرے بلکہ ان حدود سے تجاوز یا کوتاہی کرے ﴿ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ﴾ ’’تو یقیناً اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔‘‘ یعنی اس نے اپنا حق کم کیا اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی اتباع میں سے، جن میں دنیا و آخرت کی اصلاح ہے، اپنے حصے کو ضائع کیا۔ ﴿ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا﴾ ’’تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی سبیل پیدا کردے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے عظیم حکمتوں کی بنا پر طلاق کو مشروع کر کے، اس کو عدت کے ذریعے سے محدود کیا ہے۔ان حکمتوں میں سے چند درج ذیل ہیں: (۱) عدت کی حکمت میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طلاق دینے والے کے دل میں رحمت اور مودت پیدا کر دے اور طلاق دینے والا اس سے رجوع کر لے اور نئے سرے سے اس کے ساتھ رہنا سہنا شروع کر دے۔ یہ چیز ( یعنی مطلقہ سے رجوع کرنا) عدت کی مدت کی معرفت ہی سے ممکن ہے۔ (۲) ہو سکتا ہے شوہر نے بیوی کی طرف سے کسی سبب کی بنا پر اس کو طلاق دی ہو اور عدت کی مدت میں وہ سبب دور ہو جائے تو وہ اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کر لے کیونکہ طلاق کا سبب ختم ہو گیا ہے۔ (۳) ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ عدت کی مدت کے دوران اس خاوند کے حمل سے مطلقہ کے رحم کی براء ت معلوم ہو جائے گی۔
Vocabulary
AyatSummary
[1]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List