Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 64
- SuraName
- تفسیر سورۂ تغابن
- SegmentID
- 1605
- SegmentHeader
- AyatText
- {11} يقول تعالى: {ما أصاب من مصيبةٍ إلاَّ بإذنِ الله}: وهذا عامٌّ لجميع المصائب في النفس والمال والولد والأحباب ونحوهم؛ فجميع ما أصاب العباد بقضاء الله وقدره؛ قد سبق بذلك علمُ الله وجرى به قلمُه ونفذت به مشيئتُه واقتضتْه حكمتُه، ولكنَّ الشأن كل الشأن: هل يقومُ العبد بالوظيفة التي عليه في هذا المقام أم لا يقوم بها؟ فإنْ قام بها؛ فله الثواب الجزيل والأجر الجميل في الدُّنيا والآخرة؛ فإذا آمن أنها من عند الله، فرضي بذلك وسلَّم لأمره؛ هدى الله قلبه، فاطمأنَّ ولم ينزعجْ عند المصائب؛ كما يجري ممَّن لم يهدِ الله قلبه، بل يرزقه الله الثبات عند ورودِها والقيام بموجب الصبر، فيحصل له بذلك ثوابٌ عاجلٌ مع ما يدَّخر اللهُ له يوم الجزاء من الأجر العظيم ؛ كما قال تعالى: {إنَّما يُوَفَّى الصابرون أجرهم بغير حساب}. وعُلِمَ من ذلك أنَّ من لم يؤمنْ بالله عند ورود المصائب؛ بأن لم يلحظْ قضاء الله وقدره بل وقف مع مجرَّد الأسباب؛ أنَّه يُخذل ويَكِلُه الله إلى نفسه، وإذا وُكِلَ العبد إلى نفسه؛ فالنفس ليس عندها إلاَّ الهلع والجزع الذي هو عقوبةٌ عاجلةٌ على العبد قبل عقوبة الآخرة على ما فرَّط في واجب الصبر، هذا ما يتعلَّق بقوله: {ومَن يؤمِنْ بالله يَهْدِ قلبَه} في مقام المصائب الخاصِّ، وأمَّا ما يتعلَّق بها من حيث العموم اللَّفظيُّ؛ فإنَّ الله أخبر أنَّ كلَّ مَنْ آمنَ؛ أي: الإيمان المأمور به، وهو الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشرِّه، وصدَّق إيمانه بما يقتضيه الإيمان من لوازمه وواجباته؛ أنَّ هذا السبب الذي قام به العبدُ أكبرُ سببٍ لهداية الله له في أقواله وأفعاله وجميع أحواله وفي علمه وعمله، وهذا أفضل جزاءٍ يعطيه الله لأهل الإيمان؛ كما قال تعالى مخبراً أنَّه يثبِّت المؤمنين في الحياة الدنيا وفي الآخرة، وأصل الثبات ثباتُ القلب وصبرُه ويقينُه عند ورود كلِّ فتنة، فقال: {يُثبِّتُ الله الذين آمنوا بالقول الثابتِ في الحياة الدُّنيا وفي الآخرة}؛ فأهلُ الإيمان أهدى الناس قلوباً وأثبتُهم عند المزعجات والمقلقات، وذلك لما معهم من الإيمان.
- AyatMeaning
- [11] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ ’’جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ ہی کےحکم سے آتی ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ جان، مال، اولاد اور احباب کے مصائب وغیرہ سب کو شامل ہے، چنانچہ بندوں پر نازل ہونے والے تمام مصائب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے، اس پر اس کا قلم جاری ہو چکا، اس پر اس کی مشیت نافذ ہو چکی اور اس کی حکمت نے اس کا تقاضا کیا ۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ آیا بندے نے اس ذمہ داری کو پورا کیا جو اس مقام پر اس پر عائد تھی یا وہ اس کو پورا نہ کر سکا؟اگر اس نے اس ذمہ داری کو پورا کیا تو اس کے لیے دنیا و آخرت میں ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ پس جب وہ اس حقیقت پر ایمان لے آیا کہ یہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تب اس پر راضی ہوا، اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، تو اللہ اس کے قلب کو ہدایت سے بہرہ مند کر دیتا ہے ، پس وہ مطمئن ہو جاتا ہے، تب وہ مصائب کے وقت گھبراتا نہیں، جیسا کہ اس شخص کا وتیرہ ہے جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا نہیں کرتا، مگر مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی اور موجبات صبر کو قائم کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے، اس سے اس کو دنیاوی ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ، جزا و سزا کے دن کے لیے ثواب کو ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰؔبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ (الزمر: 39؍10) ’’جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے حد و حساب اجر عطا کیا جائے گا۔‘‘ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ جو کوئی مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کا لحاظ نہیں کرتا بلکہ محض اسباب کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے، اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔ جب بندہ نفس پر بھروسہ کرتا ہے تو نفس کے پاس چیخ و پکار اور بے صبری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وہ فوری سزا ہے جو آخرت کی سزا سے پہلے بندے کو اس دنیا میں اس پاداش میں ملتی ہے کہ اس نے صبر میں کوتاہی کی جو اس پر واجب تھا۔یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق ہے ﴿ وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ﴾ اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے تو مصائب کے خاص مقام میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت عطا کرتا ہے۔ رہی وہ چیز جو عموم لفظی کی حیثیت سے اس سے تعلق رکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ہر وہ شخص جو ایمان لایا ، یعنی ایسا ایمان جو مامور بہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا، پھر ایمان جن لوازم و واجبات کا تقاضا کرتا ہے، اس کے ایمان نے ان کی تصدیق کی۔ یہ سبب جس کو بندے نے اختیار کیا، اس کے اقوال و افعال، اس کے تمام احوال اور اس کے علم و عمل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہ بہترین جزا ہے جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ اصل ثابت قدمی، دل کی ثابت قدمی، اس کا صبر اور ہر قسم کے فتنہ کے وارد ہونے کے وقت اس کا یقین ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ﴾ (ابراہیم:14؍27) ’’اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے مضبوط بات کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثبات عطا کرتا ہے۔‘‘ پس اہل ایمان کے دل لوگوں میں سب سے زیادہ راہ ہدایت پر اور وہ گھبراہٹ اور خوف کے موقعوں پر سب سے زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایمان ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [11]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF