Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 60
- SuraName
- تفسیر سورۂ ممتحنہ
- SegmentID
- 1584
- SegmentHeader
- AyatText
- {1} فقال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا}؛ أي: اعملوا بمقتضى إيمانكم من ولايةِ مَنْ قام بالإيمان ومعاداة من عاداه؛ فإنَّه عدوٌّ لله وعدوٌّ للمؤمنين، فـ {لا تتَّخذوا عدوِّي وعدوَّكم أولياءَ تُلْقون إليهم بالمودَّة}؛ أي: تسارعون في مودَّتهم والسعي في أسبابها؛ فإنَّ المودَّة إذا حصلت؛ تبعتْها النصرةُ والموالاةُ، فخرج العبد من الإيمان، وصار من جملة أهل الكفران [وانفصل عن أهل الإيمان]. وهذا المتَّخذُ للكافر وليًّا عادمُ المروءة أيضاً؛ فإنَّه كيف يوالي أعدى أعدائه، الذي لا يريد له إلاَّ الشرَّ، ويخالف ربَّه ووليَّه الذي يريد به الخير، ويأمره به ويحثُّه عليه. ومما يدعو المؤمن أيضاً إلى معاداة الكفار أنَّهم قد كفروا بما جاء المؤمنين من الحقِّ، ولا أعظم من هذه المخالفة والمشاقَّة؛ فإنَّهم قد كفروا بأصل دينكم، وزعموا أنَّكم ضلاَّلٌ على غير هدىً، والحالُ أنَّهم كفروا بالحقِّ الذي لا شكَّ فيه ولا مريةَ، ومن ردَّ الحقَّ؛ فمحالٌ أن يوجد له دليلٌ أو حجَّةٌ تدلُّ على صحة قوله. بل مجرَّد العلم بالحقِّ يدلُّ على بطلان قول من ردَّه وفساده. ومن عداوتهم البليغة أنَّهم {يُخْرِجون الرسولَ وإيَّاكم}: أيُّها المؤمنون من دياركم ويشرِّدونكم من أوطانكم ولا ذنبَ لكم في ذلك عندهم إلاَّ أنكم تؤمنون {بالله ربِّكم}: الذي يتعيَّن على الخلق كلِّهم القيام بعبوديَّته؛ لأنَّه ربَّاهم، وأنعم عليهم بالنِّعم الظاهرة والباطنة [وهو اللَّه تعالى]، فلمَّا أعرضوا عن هذا الأمر الذي هو أوجبُ الواجبات وقمتُم به؛ عادَوْكم وأخرجوكم من أجله من دياركم، فأيُّ دين وأيُّ مروءة وعقل يبقى مع العبد إذا والى الكفار الذين هذا وصفُهم في كلِّ زمانٍ أو مكان، ولا يمنعهم منه إلاَّ خوفٌ أو مانعٌ قويٌّ. {إن كنتُم خرجتُم جهاداً في سبيلي وابتغاء مرضاتي}؛ أي: إن كان خروجُكم مقصودُكم به الجهادُ في سبيل الله لإعلاء كلمة الله وابتغاء رضاه؛ فاعملوا بمقتضى هذا من موالاة أولياء الله ومعاداة أعدائهِ؛ فإنَّ هذا من أعظم الجهاد في سبيله، ومن أعظم ما يتقرَّب به المتقرِّبون إلى الله ويبتغون به رضاه. {تُسِرُّون إليهم بالمودَّةِ وأنا أعلمُ بما أخفيتُم وما أعلنتُم}؛ أي: كيف تسرُّون المودَّة للكافرين وتخفونها مع علمكم أنَّ الله عالمٌ بما تخفون وما تعلنون؛ فهو وإن خفي على المؤمنين؛ فلا يخفى على الله تعالى، وسيجازي العباد بما يعلمه منهم من الخير والشرِّ. {ومن يَفْعَلْه منكم}؛ أي: موالاة الكافرين بعدما حذَّركم الله منها، {فقد ضلَّ سواءَ السبيل}: لأنَّه سلك مسلكاً مخالفاً للشرع وللعقل والمروءة الإنسانيَّة.
- AyatMeaning
- [1] اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’اے ایمان والو!‘‘ یعنی اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو۔ جو ایمان لائے اس کے ساتھ موالات و مودت رکھو، جو ایمان کے ساتھ عداوت رکھے، تم اس کے ساتھ عداوت رکھو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن اور اہل ایمان کا دشمن ہے، لہٰذا ﴿ لَا تَتَّؔخِذُوْا عَدُوِّیْ ﴾ نہ بناؤ تم اللہ تعالیٰ کے دشمن کو ﴿وَعَدُوَّؔكُمْ اَوْلِیَآءَؔ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ﴾ ’’اور اپنے دشمنوں کو دوست۔ تم انھیں دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔‘‘ یعنی تم ان کی محبت و مودت اور اس کے اسباب کے حصول کی کوشش میں جلدی مچاتے ہو۔ جب مودت حاصل ہو جاتی ہے تو نصرت و موالات اس کے پیچھے آتی ہیں۔ تب بندہ ایمان کے دائرے سے نکل کر اہل کفر ان کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے۔کافر کو دوست بنانے والا یہ شخص مروت سے بھی محروم ہے، وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے کیوں کر موالات رکھتا ہے جو اس کے بارے میں صرف برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے رب کی کیوں کر مخالفت کرتا ہے جو اس کے بارے میں صرف بھلائی چاہتا ہے، اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور بھلائی کی ترغیب دیتا ہے؟ مومن کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی طرف یہ چیز بھی دعوت دیتی ہے کہ انھوں نے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا جو مومنوں کے پاس آیا تھا۔ اس مخالفت اور دشمنی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں، انھوں نے تمھارے اصل دین کا انکار کیا ہے، ان کا گمان ہے کہ تم گمراہ ہو، ہدایت پر نہیں ہو۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ انھوں نے حق کا انکار کیا جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور جو کوئی حق کو ٹھکراتا ہے تو یہ امر محال ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل یا حجت پائی جائے جو اس کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہو بلکہ حق کا مجرد علم ہی اس شخص کے قول کے بطلان اور فساد پر دلالت کرتا ہے جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ یہ ان کی انتہا کو پہنچتی ہوئی عداوت ہے کہ ﴿ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاكُمْ﴾ اے مومنو! وہ رسول کو اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالتے ہیں اور تمھیں جلا وطن کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس بارے میں تمھارا اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کہ ﴿ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ﴾ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو جس کی عبودیت کو قائم کرنا تمام مخلوق پر فرض ہے کیونکہ اسی نے ان کی پرورش کی اور ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا ۔جب انھوں نے اس کام سے منہ موڑ لیا جو سب سے بڑا فرض تھا اور تم نے اس کو قائم کیا تو وہ تمھارے ساتھ دشمنی پر اتر آئے اور اس بنا پر انھوں نے تمھیں تمھارے گھروں سے نکال دیا۔تب کون سا دین، کون سی مروت اور کون سی عقل بندے کے پاس باقی رہ جاتی ہے، اگر پھر بھی وہ کفار کے ساتھ موالات رکھے، جن کا ہر زمان و مکان میں یہی وصف ہے، ان کو خوف یا کسی طاقتور مانع کے سوا کسی چیز نے ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَؔ مَرْضَاتِیْ﴾ یعنی اگر تمھارا گھروں سے نکلنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کی رضا کی طلب کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ہے، تو اس کے تقاضے کے مطابق اولیاء اللہ سے موالات اور اس کے دشمنوں سے عداوت رکھو، یہ اس کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور سب سے بڑا وسیلہ ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے والے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اس کی رضا کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ﴿ تُ٘سِرُّوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ١ۖ ۗ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَیْتُمْ وَمَاۤ اَعْلَنْتُمْ﴾ یعنی تم کفار کے ساتھ مودت کو کیسے چھپاتے ہو حالانکہ تمھیں علم ہے کہ تم جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، تمھارا کفار کے ساتھ مودت و موالات رکھنا، اگرچہ اہل ایمان پر چھپا ہوا ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں ہے، وہ عنقریب اپنے بندوں کو ان کے بارے میں اپنے علم کے مطابق نیکی اور بدی کی جزا و سزا دے گا۔ ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ﴾ اور جو کوئی کفار سے موالات رکھے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس سے منع کیا ہے۔﴿ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَؔ السَّبِیْلِ﴾ ’’تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘ کیونکہ وہ ایسے راستے پر چل پڑا جو شریعت، عقل اور مروت انسانی کے خلاف ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [1]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF