Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
59
SuraName
تفسیر سورۂ حشر
SegmentID
1581
SegmentHeader
AyatText
{10} فهذان الصنفان الفاضلان الزكيَّان هم الصحابة الكرام والأئمة الأعلام، الذين حازوا من السوابق والفضائل والمناقب ما سَبَقوا به مَن بعدَهم وأدركوا به مَن قبلهم، فصاروا أعيان المؤمنين وسادات المسلمين وقادات المتَّقين، وحسب من بعدهم من الفضل أن يسيرَ خلفَهم ويأتمَّ بهُداهم، ولهذا ذكر الله من اللاحقين مَن هو مؤتمٌّ بهم [وسائر خلفهم]، فقال: {والذين جاؤوا من بعدِهم}؛ أي: من بعد المهاجرين والأنصارِ، {يقولون}: على وجه النُّصح لأنفسهم ولسائر المؤمنين: {ربَّنا اغْفِرْ لنا ولإخوانِنا الذين سَبَقونا بالإيمانِ}: وهذا دعاءٌ شاملٌ لجميع المؤمنين من السابقين من الصحابة ومَن قبلَهم ومَن بعدهم، وهذا من فضائل الإيمان؛ أنَّ المؤمنين ينتفعُ بعضُهم ببعض ويدعو بعضُهم لبعض؛ بسبب المشاركةِ في الإيمان، المقتضي لعقد الأخوَّة بين المؤمنين، التي من فروعها أن يدعوَ بعضُهم لبعض، وأن يحبَّ بعضُهم بعضاً، ولهذا ذكر الله في هذا الدعاء نفي الغلِّ عن القلب، الشامل لقليلِه وكثيرِه، الذي إذا انتفى؛ ثبت ضدُّه، وهو المحبَّة بين المؤمنين والموالاة والنصح ونحو ذلك مما هو من حقوق المؤمنين، فوصفَ الله مَن بعد الصحابة بالإيمان؛ لأنَّ قولهم: {سَبَقونا بالإيمان}: دليلٌ على المشاركة فيه ، وأنَّهم تابعون للصحابة في عقائد الإيمان وأصوله، وهم أهل السنة والجماعة، الذين لا يصدق هذا الوصف التامُّ إلاَّ عليهم، وَوَصَفَهم بالإقرار بالذُّنوب والاستغفار منها واستغفار بعضهم لبعض واجتهادهم في إزالة الغلِّ والحقدِ [عن قلوبهم] لإخوانهم المؤمنين؛ لأنَّ دعاءهم بذلك مستلزمٌ لما ذكرنا ومتضمِّنٌ لمحبَّة بعضهم بعضاً، وأنْ يحبَّ أحدُهم لأخيه ما يحبُّ لنفسه، وأن ينصحَ له حاضراً وغائباً حيًّا وميتاً. ودلَّت الآية الكريمة على أنَّ هذا من جملة حقوق المؤمنين بعضهم لبعض. ثم ختموا دعاءهم باسمينِ كريمينِ دالَّين على كمال رحمة الله وشدَّة رأفته وإحسانه بهم، الذي من جملته: بل [من] أَجَلِّه توفيقُهم للقيام بحقوقه وحقوق عباده. فهؤلاء الأصناف الثلاثة هم أصناف هذه الأمة، وهم المستحقُّون للفيء، الذي مصرفه راجعٌ إلى مصالح الإسلام، وهؤلاء أهله الذين هم أهلُه، جعلنا الله منهم بمنِّه وكرمه.
AyatMeaning
[10] ﴿ وَالَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ﴾ یعنی جو(اہل ایمان)مہاجرین و انصار کے بعد آئے ﴿ یَقُوْلُوْنَ﴾ وہ اپنی اور تمام مومنین کی خیر خواہی کے لیے کہتے ہیں ﴿ رَبَّنَا اغْ٘فِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں۔‘‘ یہ دعا تمام گزرے ہوئے اہل ایمان، صحابہ، ان سے پہلے اور ان کے بعد آنے والے تمام اہل ایمان کو شامل ہے۔ یہ ایمان کی فضیلت ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایمان میں مشارکت کے سبب سے ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے ہیں، ایمان مومنین کے درمیان اخوت کا تقاضا کرتا ہے، جس کی فروع میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے دعا کریں اور ایک دوسرے سے محبت کریں۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دعا میں قلب سے کینہ کی نفی کا ذکر فرمایا جو قلیل و کثیر ہر قسم کے کینہ کو شامل ہے، جب کینہ کی نفی ہو گئی تو اس کی ضد ثابت ہو گئی اور وہ ہے اہل ایمان کے مابین محبت و موالات اور خیر خواہی وغیرہ، جو اہل ایمان کے حقوق شمار ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام y کے بعد آنے والوں کو ایمان کے وصف سے موصوف کیا ہے، کیونکہ ان کا قول ﴿ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ایمان میں ان کی مشارکت پر دلالت کرتا ہے۔ نیز اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عقائد، ایمان اور اس کے اصول میں صحابہ کرام کی پیروی کرنے والے ہیں اور وہ ہیں اہل سنت و الجماعت، کیونکہ یہ وصف تام صرف انھی پر صادق آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں کے اقرار اور پھر ان گناہوں سے استغفار کے ساتھ موصوف کیا ہے۔ نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے کے لیے استغفار کرتے ہیں اور مومن بھائیوں کے خلاف کینہ اور حسد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ان کا اس چیز کی دعا کرنا ان امور کو مستلزم ہے اور جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور ان کے ایک دوسرے سے محبت کرنے کو مستلزم ہے اور اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ ان میں سے کوئی اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں، اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد اس کی خیر خواہی کرے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اہل ایمان کے ایک دوسرے پر جملہ حقوق ہیں، پھر انھوں نے اپنی دعا کو اللہ تعالیٰ کے دو اسمائے کریمہ پر ختم کیا جو اللہ تعالیٰ کے کمال رحمت اور شدت رأفت و احسان پر دلالت کرتے ہیں، اس کے جملہ احسانات میں سے بلکہ ان میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کواپنے حقوق اور اپنے بندوں کے حقوق قائم کرنے کی توفیق سے بہرہ ور کیا۔ یہ تین اصناف کے لو گ اسی امت کے لوگ ہیں جو فَے کے مستحق ہیں جس کا مصرف اسلام کے مصالح کی طرف راجع ہےاور وہی لوگ اس کی اہلیت رکھتے ہیں جو اس کے اہل ہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ان میں شامل کرے۔
Vocabulary
AyatSummary
[10]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List