Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 59
- SuraName
- تفسیر سورۂ حشر
- SegmentID
- 1581
- SegmentHeader
- AyatText
- {8 ـ 9} ثم ذكر تعالى الحكمة والسبب الموجب لجعله تعالى أموال الفيء لمن قدَّرها له، وأنَّهم حقيقون بالإعانة، مستحقُّون لأن تُجعل لهم، وأنهم ما بين مهاجرين؛ قد هجروا المحبوبات والمألوفات من الديار والأوطان والأحباب والخلان والأموال رغبةً في الله ونصرةً لدين الله ومحبةً لرسول الله؛ فهؤلاء هم الصادقون؛ الذين عملوا بمقتضى إيمانهم، وصدَّقوا إيمانَهم بأعمالهم الصالحة والعبادات الشاقَّة؛ بخلاف مَنِ ادَّعى الإيمان وهو لم يصدِّقْه بالجهاد والهجرة وغيرهما من العبادات، وبين أنصار، وهم الأوس والخزرج، الذين آمنوا بالله ورسوله طوعاً ومحبةً واختياراً، وآووا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ومنعوه من الأحمر والأسود، وتبوَّءوا دار الهجرة والإيمان، حتى صارت موئلاً ومرجعاً يرجع إليه المؤمنون، ويلجأ إليه المهاجرون، ويسكن بحماه المسلمون؛ إذ كانت البلدانُ كلُّها بلدانَ حربٍ وشركٍ وشرٍّ، فلم يزل أنصارُ الدين يأوون إلى الأنصار، حتى انتشر الإسلام وقوي وجعل يزداد شيئاً فشيئاً، [وينمو قليلاً قليلاً] حتى فتحوا القلوبَ بالعلم والإيمان والقرآن، والبلدانَ بالسيف والسنان، الذين من جُملة أوصافهم الجميلة أنهم {يحبُّون مَن هاجَر إليهم}، وهذا لمحبَّتهم لله ورسوله، أحبُّوا أحبابه، وأحبُّوا من نصر دينه. {ولا يجِدونَ في صدورهم حاجةً مما أوتوا}؛ أي: لا يحسُدون المهاجرين على ما آتاهم الله من فضلهِ وخصَّهم به من الفضائل والمناقب الذين هم أهلها. وهذا يدلُّ على سلامة صدورهم وانتفاء الغلِّ والحقد والحسد عنها، ويدلُّ ذلك على أنَّ المهاجرين أفضل من الأنصار؛ لأنَّ الله قدَّمهم بالذِّكر، وأخبر أنَّ الأنصارَ لا يجدون في صدورهم حاجةً مما أوتوا، فدلَّ على أنَّ الله تعالى آتاهم ما لم يؤتِ الأنصارَ ولا غيرهم، ولأنَّهم جمعوا بين النصرة والهجرة، وقوله: {ويؤثِرونَ على أنفسِهِم ولو كان بهم خَصاصةٌ}؛ أي: ومن أوصاف الأنصار التي فاقوا بها غيرهم وتميَّزوا بها عمَّن سواهم الإيثار، وهو أكمل أنواع الجود، وهو الإيثار بمحابِّ النفس من الأموال وغيرها، وبذلها للغيرِ، مع الحاجة إليها، بل مع الضَّرورة والخَصاصة، وهذا لا يكون إلا من خُلُقٍ زكيٍّ ومحبَّة لله تعالى مقدَّمة على [محبة] شهوات النفس ولذَّاتها. ومن ذلك قصَّة الأنصاريِّ الذي نزلت الآية بسببه حين آثر ضيفَه بطعامه وطعام أهله وأولادِهِ وباتوا جياعاً. والإيثار عكس الأثَرَةِ؛ فالإيثارُ محمودٌ، والأثَرَةُ مذمومةٌ؛ لأنَّها من خصال البخل والشحِّ، ومن رُزِق الإيثار؛ فقد وُقِيَ شُحَّ نفسِه، {ومَن يوقَ شُحَّ نفسهِ فأولئك همُ المفلحونَ}: ووقايةُ شحِّ النفس يشمل وقايتها الشحَّ في جميع ما أمر به؛ فإنَّه إذا وُقِيَ العبدُ شحَّ نفسه؛ سمحت نفسه بأوامر الله ورسوله، ففعلها طائعاً منقاداً منشرحاً بها صدرُه، وسمحت نفسه بترك ما نهى اللهُ عنه، وإنْ كان محبوباً للنفس؛ تدعو إليه وتطلَّع إليه، وسمحتْ نفسه ببذل الأموال في سبيل الله وابتغاءِ مرضاتِه، وبذلك يحصُلُ الفلاح والفوزُ؛ بخلاف مَنْ لم يوقَ شحَّ نفسه، بل ابْتُلِيَ بالشُّحِّ بالخير الذي هو أصل الشرِّ ومادته.
- AyatMeaning
- [9,8] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نےفَے کے مال کو جن لوگوں کے لیے مقرر فرمایا، اس کے موجب اور اس میں حکمت کا ذکر فرمایا، نیز بیان فرمایا کہ یہی لوگ اعانت کے مستحق ہیں اور اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے لیے فَے میں حصہ مقرر کیا جائےاور یہ ان مہاجرین کے مابین ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ میں رغبت اور رسول اللہ e کی محبت کی خاطر، اپنے محبوب و مالوف گھر بار، وطن، دوستوں اور احباب کو چھوڑ دیا۔ یہی لوگ سچے ہیں، جنھوں نے اپنے ایمان کے تقاضے کے مطابق عمل کیا، اعمال صالحہ اور مشقت آمیز عبادت کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی بخلاف ان لوگوں کے جنھوں نے ایمان کا دعویٰ کیا مگر ہجرت اور جہاد وغیرہ عبادات کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق نہ کی، نیز انصار یعنی اوس اور خزرج کے مابین ہیں جو اپنی خوشی، محبت اور اختیار سے ایمان لائے۔ جب عرب کے تمام شہر دارالحرب، شرک اور شر کا گڑھ تھے تب انھوں نے رسول اللہ e کو پناہ دی، سرخ و سیاہ سے آپ کی حفاظت کی، دار ہجرت و ایمان میں اقامت کی یہاں تک کہ دار ہجرت ایک ایسا مرجع بن گیا جس کی طرف مومنین رخ کرتے تھے، جہاں مہاجرین پناہ لیتے اور اس کی چراگاہوں میں مسلمان سکونت اختیار کرتے۔ پس دین کی مدد کرنے والے انصار کے پاس پناہ لیتے رہے، یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا، اس نے طاقت پکڑ لی اور اس میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا، حتیٰ کہ مسلمانوں نے علم و ایمان اور قرآن کے ذریعے سے دلوں کو اور شمشیر و سناں کے ذریعے سے شہروں کو فتح کر لیا جن کے جملہ اوصاف جمیلہ یہ ہیں: ﴿یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ﴾ ’’وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں، اس کے احباب سے محبت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ﴿وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّؔمَّاۤ اُوْتُوْا﴾’’اور و ہ اپنے دلوں میں اس (مال) کی کوئی حاجت نہیں پاتے جو ا ن (مہاجرین) کو دیا جائے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا ہے اور ان کو جن فضائل و مناقب سے مختص کیا جن کے وہ اہل ہیں، وہ ان پر حسد نہیں کرتے۔ یہ آیت کریمہ ان کے سینے کی سلامتی، ان میں بغض، کینہ اور حسد کے عدم وجود پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مہاجرین، انصار سے افضل ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذکر کو مقدم رکھا ہے۔نیز آگاہ فرمایا کہ مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا گیا انصار اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی حسد محسوس نہیں کرتے۔ یہ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو وہ فضائل عطا کیے جو انصار اور دیگر لوگوں کو عطا نہیں کیے کیونکہ انھوں نے نصرت دین اور ہجرت کو جمع کیا۔ ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ ’’اور اپنی ذات پر (ان کو) ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انھیں سخت ضرورت ہو۔‘‘ یعنی انصار کے اوصاف میں سے ایک وصف ایثار ہے، جس کی بنا پر وہ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور ان سے ممتاز ہیں، اور یہ کامل ترین جود و سخا ہے اور نفس کے محبوب اموال وغیرہ میں ایثار کرنا اور ان اموال کے خود حاجت مند بلکہ ضرورت مند اور بھوکے ہونے کے باوجود دوسرے پر خرچ کرنا، یہ وصف اخلاق زکیہ، اللہ تعالیٰ سے محبت، پھر شہوات نفس اور اس کی لذات پر اس کی محبت کو مقدم رکھنے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جملہ واقعات میں اس انصاری کا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس کے سبب سے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے جب اس نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے کھانے میں اپنے مہمان کو ترجیح دی اور تمام گھر والوں اور بچوں نے رات بھوکے بسر کی۔ (اِیثَارٌ) ’’ترجیح دینا‘‘ (اَثْرَۃٌ ) ’’خود غرضی‘‘ کی ضد ہے۔ ایثار قابل تعریف وصف ہے اور خود غرضی مذموم ہے کیونکہ یہ بخل اور حرص کے خصائل کے زمرے میں آتی ہے ، اور جسے ایثار عطا کیا گیا اسے نفس کے بخل و حرص سے بچا لیا گیا۔ ﴿وَمَنْ یُّوْقَ شُ٘حَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ’’اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح یاب ہیں۔‘‘ اور نفس کے حرص سے بچنے میں ان تمام امور میں حرص سے بچنا شامل ہے جن کا حکم دیا گیا ہے، جب بندہ نفس کی حرص سے بچ گیا، تو اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام آسان لگتے ہیں وہ خوشی سے سر تسلیم خم کرتے ہوئے انشراح صدر کے ساتھ ان کی تعمیل کرتا ہے، اور نفس کے لیے ان تمام امور کو ترک کرنا سہل ہو جاتا ہے، جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، خواہ یہ نفس کے محبوب امور ہی کیوں نہ ہوں اور نفس ان کی طرف بلاتا اور ان کی طرف رغبت کیوں نہ دلاتا ہو۔ اس شخص کے نفس کے لیے، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنا آسان ہو جاتا ہے، اور اسی سے فوز و فلاح حاصل ہوتی ہے، برعکس اس شخص کے جو نفس کے بخل و حرص سے بچا ہوا نہیں بلکہ بھلائی کے بارے میں حرص کی بیماری میں مبتلا ہے، اور یہ حرص شر کی جڑ اور اس کی بنیاد ہے۔ پس اہل ایمان کی یہ دو فضیلت والی، پاک اصناف ہیں اور وہ صحابہ کرام اور ائمہ اعلام ہیں جنھوں نے سابقیت کے اوصاف، فضائل اور مناقب کو جمع کر لیا ان کے بعد کسی نے ان سے سبقت نہیں کی۔ صحابہ کرام y نے بھلائی میں پہلے لوگوں کو جا لیا اور اس طرح وہ مومنوں کے سربراہ، مسلمانوں کے سردار اور اہل تقویٰ کے قائد بن گئے۔ ان کے بعد آنے والوں کے لیے یہی فضیلت کافی ہے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے طریق کو راہ نما بنائیں۔ اس لیے بعد میں آنے والوں میں سے جو کوئی ان کو راہ نما بناتا ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
- Vocabulary
- AyatSummary
- [9,8
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF