Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
59
SuraName
تفسیر سورۂ حشر
SegmentID
1581
SegmentHeader
AyatText
{2} ومن ذلك نصرُه لرسوله - صلى الله عليه وسلم - على الذين كفروا من أهل الكتاب من بني النضير حين غَدَروا برسوله فأخرجهم من ديارهم وأوطانهم التي ألِفوها وأحبوها، وكان إخراجهم منها أولَ حشرٍ وجلاءٍ كتبه الله عليهم على يد رسولِه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، فجلوا إلى خيبر. ودلَّت الآية الكريمة أن لهم حشراً وجلاءً غير هذا؛ فقد وقع حين أجلاهم النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - من خيبر، ثم عمرُ رضي الله عنه أخرج بقيتهم منها. {ما ظننتُم}: أيها المسلمون {أن يخرُجوا}: من ديارهم؛ لحصانتها ومنعتها وعزِّهم فيها، {وظنوا أنهم مانعتُهم حصونُهم من اللهِ}: فأعجبوا بها، وغرَّتْهم، وحسبوا أنهم لا يُنالون بها، ولا يقدِرُ عليها أحدٌ، وقدَرُ الله وراء ذلك كلِّه، لا تغني عنه الحصونُ والقلاعُ ولا تجدي فيه القوةُ والدفاع، ولهذا قال: {فأتاهمُ اللهُ من حيثُ لم يحتسِبوا}؛ أي: من الأمر والباب الذي لم يخطر ببالهم أن يُؤتَوا منه، وهو أنَّه تعالى: {قَذَفَ في قلوبِهِم الرعبَ}: وهو الخوف الشديدُ، الذي هو جند الله الأكبر، الذي لا ينفع معه عددٌ ولا عدةٌ ولا قوةٌ ولا شدةٌ؛ فالأمر الذي يحتسبونه، ويظنُّون أنَّ الخلل يدخل عليهم منه إن دخل، هو الحصون التي تحصَّنوا بها واطمأنتْ نفوسُهم إليها، ومن وَثِقَ بغير الله؛ فهو مخذولٌ، ومن ركن إلى غير الله؛ كان وبالاً عليه ، فأتاهم أمرٌ سماويٌّ نزل على قلوبهم، التي هي محلُّ الثبات والصبر أو الخور والضعف، فأزال قوَّتها وشدَّتها، وأورثها ضعفاً وخوراً وجبناً لا حيلة لهم في دفعه ، فصار ذلك عوناً عليهم، ولهذا قال: {يُخْرِبونَ بيوتَهم بأيديهِم وأيدي المُؤمِنينَ}، وذلك أنَّهم صالحوا النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - على أنَّ لهم ما حملتِ الإبلُ، فنقضوا لذلك كثيراً من سقوفهم التي استحسنوها، وسلَّطوا المؤمنين بسبب بغيهم على إخراب ديارِهِم وهدم حصونِهم، فهم الذين جَنَوا على أنفسهم وصاروا أكبر عونٍ عليها. {فاعْتَبِروا يا أولي الأبصارِ}؛ أي: البصائر النافذة والعقول الكاملة؛ فإنَّ في هذا معتبراً يُعْرَف به صنع الله [تعالى] في المعاندين للحقِّ، المتبعين لأهوائهم، الذين لم تنفعهم عزَّتهم ولا مَنَعَتْهم قوتُهم ولا حصَّنتهم حصونهم، حين جاءهم أمرُ الله؛ وصل إليهم النكال بذنوبهم، والعبرة بعموم المعنى لا بخصوص السبب؛ فإنَّ هذه الآية تدلُّ على الأمر بالاعتبار، وهو اعتبار النظير بنظيره، وقياس الشيء على ما يشابهه ، والتفكُّر فيما تضمَّنته الأحكام من المعاني والحكم التي هي محلُّ العقل والفكرة، وبذلك يكمُلُ العقل، وتتنور البصيرة، ويزداد الإيمان، ويحصل الفهم الحقيقيُّ.
AyatMeaning
[2] یہ اس کی حکمت ہے کہ جب اہل کتاب میں سے بنونضیر نے اس کے رسول کے ساتھ بدعہدی کی تو اس نے ان کے مقابلے میں اپنے رسول e کی مدد کی پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا، جن سے وہ محبت کرتے تھے، ان کا اپنے گھروں اور وطن سے نکالا جانا اولین جلا وطنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رسول اللہ e کے ہاتھوں خیبر کی طرف مقدر ٹھہرائی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس جلا وطنی کے علاوہ بھی ان کو جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا اور یہ وہ جلا وطنی ہے جو خیبر سے رسول اللہe کے ہاتھوں واقع ہوئی، پھر حضرت عمرt نے (اپنے عہد خلافت میں)بقیہ تمام یہودیوں کو خیبر سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَا ظَنَنْتُمْ﴾ اے مسلمانو! تمھارے خیال میں بھی نہ تھا ﴿ اَنْ یَّخْرُجُوْا﴾ کہ وہ اپنے گھروں سے نکل جائیں گے، کیونکہ ان کے گھر محفوظ اور مصئو ن تھے اور ان میں عزت اور غلبے کے ساتھ رہتے تھے ﴿ وَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّؔانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اور وہ گمان کر رہے تھے کہ ان کے قلعے انھیں اللہ سے بچالیں گے۔‘‘ انھیں ان قلعوں پر بہت غرور تھا، ان قلعوں نے ان کو دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان قلعوں کی وجہ سے ان تک پہنچا جا سکتا ہے نہ ان پر کوئی قابو پا سکتا ہے۔ اس کے ماوراء اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا امر مقدر کر دیا، جس سے انھیں ان کی محفوظ پناہ گاہیں بچاسکیں نہ قلعے، اور نہ قوت اور مدافعت ہی کام آسکی۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا﴾ ’’پس اللہ نے انھیں وہاں سے آلیا جہاں سے انھیں گمان بھی نہیں تھا۔‘‘ یعنی اس طریقے اور اس راستے سے جس کے بارے میں انھیں وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہاں سے ان کو آ لیا جائے گا۔ اور وہ یہ بات تھی ﴿ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ﴾ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، اس سے مراد شدید خوف ہے جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی سپاہ ہے، جس کے سامنے تعداد اور ساز و سامان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ طاقت اور بہادری کوئی کام آتی ہے۔ وہ معاملہ جس کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی خلل داخل ہوا تو اس راستے سے داخل ہو گااور وہ ان کے قلعے تھے جہاں داخل ہو کر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے اور ان قلعوں پر ان کے دل مطمئن تھے۔ جو کوئی غیر اللہ پر بھروسہ کرتا ہے وہ بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو کوئی غیر اللہ کا سہارا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال بن جاتا ہے۔ پس ان کے پاس ایک آسمانی معاملہ آیا اور ان کے دلوں میں نازل ہوا، جو صبر و ثبات اور بز دلی و کمزوری کا محل و مقام ہوتے ہیں، چنانچہ اس نے ان کی قوت اور بہادری کو زائل کر دیا اور اس کی جگہ کمزوری اور بز دلی دے دی جس کو دور کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حیلہ نہ تھا اور یہ چیز ان کے خلاف (مسلمانوں کی)مددگار بن گئی۔ بنابریں فرمایا :﴿ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ اور وہ یہ کہ انھوں نے رسول اللہe سے اس شرط پر مصالحت کی کہ ان کے اونٹ جو کچھ اٹھائیں سب ان کا ہے۔ اس بنا پر انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کی چھتوں کو اکھاڑ ڈالا جو انھیں بہت اچھی لگتی تھیں اور اپنی سر کشی کی بنا پر اپنے گھروں کے برباد کرنے اور اپنے قلعوں کے منہدم کرنے پر مسلمانوں کو مسلط کر دیاتو یہ وہی ہیں جنھوں نے خود اپنے خلاف جرم کیا اور ان قلعوں اور گھروں کو برباد کرنے میں مددگار بنے۔ ﴿ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ﴾ پس اے اہل بصیرت عبرت یعنی معاملات کی گہرائی میں اتر جانے والی بصیرت اور کامل عقل والو! عبرت حاصل کرو کیونکہ اس واقعہ میں عبرت ہے، اس سے ان معاندین حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سلوک کی معرفت حاصل ہوتی ہے، جو اپنی خواہشات نفس کے پیچھے چلتے ہیں، جن کی عزت نے انھیں کوئی فائدہ دیا نہ طاقت انھیں بچا سکی، جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم آ گیا اور ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب آ پہنچا، تو ان کے قلعے ان کی حفاظت نہ کر سکے، لہٰذا اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ اسباب کے خصوص کا، چنانچہ یہ آیت کریمہ عبرت حاصل کرنے کے حکم پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے نظیر کے ذریعے سے اس کے نظیر سے عبرت حاصل کرنا اور کسی چیز کو اس چیز پر قیاس کرنا جو اس سے مشابہت رکھتی ہے، اسی عبرت سے عقل کی تکمیل اور بصیرت روشن ہوتی ہے، ایمان میں اضافہ اور حقیقی فہم حاصل ہوتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[2]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List