Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 59
- SuraName
- تفسیر سورۂ حشر
- SegmentID
- 1581
- SegmentHeader
- AyatText
- AyatMeaning
- اس سورۂ مبارکہ کو ’’سورۂ بنی نضیر‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ بنو نضیر یہودیوں کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو نبی ٔاکرمe کی بعثت کے وقت مدینہ کے مضافات میں آباد تھا۔ جب نبی ٔاکرمe مبعوث ہوئے اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انھوں نے جملہ یہود کے ساتھ آپ کی نبوت کا انکار کر دیا، نبی ٔاکرم e نے یہود کے ان قبائل کے ساتھ معاہدہ کیا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پڑوس میں آباد تھے۔ غروۂ بدر کے تقریباً چھ ماہ بعد نبی اکرم e ان کے پاس گئے اور ان سے گفتگو کی کہ (معاہدے کے مطابق) وہ ان کلابیوں کی دیت کے بارے میں آپ کی مدد کریں، جن کو عمرو بن امیہ ضمری نے قتل کیا تھا۔ انھوں نے کہا ’’اے ابوالقاسم! ہم آپ کی مدد کریں گے آپ یہاں بیٹھیے، یہاں تک کہ ہم آپ کے لیے دیت اکٹھی کردیں، چنانچہ وہ تنہائی میں ایک دوسرے سے ملے اور شیطان نے ان کے لیے اس بدبختی کو آسان بنا دیا جو ان کے لیے لکھ دی گئی تھی، چنانچہ انھوں نے آپ کے قتل کی سازش کی اور آپ کے بارے میں کہنے لگے ’’تم میں سے کون ہے جو اس چکی کو اٹھائے چھت پر چڑھ کر آپ کے سر پر دے مارے اور اس سے آپ کا سر کچل ڈالے؟‘‘ ان میں سے بدبخت ترین شخص عمرو بن جحاش نے کہا: ’’یہ کام میں کروں گا‘‘ سَلَام بِن مِشْکَمْ نے ان سے کہا ’’یہ کام نہ کرواللہ کی قسم! تمھارے ارادے سے اسے ضرور آگاہ کر دیا جائے گا، اور یہ اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے جو ہمارے اور اس کے درمیان ہوا ہے۔‘‘ انھوں نے جو سازش کی تھی اس کے بارے میں آپ پر فوراً وحی نازل ہو گئی، آپ جلدی سے وہاں سے اٹھ گئے اور مدینہ کا رخ کیا اور آپ کے صحابہ بھی (جو ساتھ گئے تھے) آپ سے مل گئے اور عرض کیا ’’آپ وہاں سے اٹھ آئے اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔‘‘ آپ نے انھیں اس سازش کے بارے میں آگاہ فرمایا جو یہودیوں نے آپ کے خلاف کی تھی۔ رسول اللہ e نے یہودیوں کو پیغام بھجوایا کہ ’’مدینہ سے نکل جاؤ اور اس میں مت رہو، میں تمھیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں، اس کے بعد میں نے جس کسی کو مدینہ میں پایا، اس کی گردن مار دوں گا۔‘‘ بنونضیر مدینہ منورہ میں کچھ دن ٹھہرے اور (وہاں سے نکلنے کی) تیاری کرتے رہے، عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق نے ان کو پیغام بھجوایا ’’اپنے گھروں سے مت نکلو، میرے ساتھ دو ہزار آدمی ہیں جو تمھارے ساتھ تمھارے قلعے میں داخل ہوں گے اور تمھاری خاطر اپنی جان دیں گے، بنوقریظہ اور بنوغطفان میں سے تمھارے حلیف بھی تمھاری مدد کریں گے۔‘‘ بنونضیر کا سردار حُیَي بن اخطب، عبداللّٰہ بن اُبَّی کے کہنے میں آ گیا اور رسول اللہ e کو کہلا بھیجا ’’ہم اپنے گھروں سے نہیں نکلیں گے، جو چاہو کر لو‘‘ رسول اللہ e اور صحابہ کرام نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور یہود کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت علیt نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ یہودی اپنے قلعوں میں مقیم ہو کر پتھر اور تیر پھینکنے لگے، بنوقریظہ ان سے الگ ہو گئے، عبداللہ بن ابی اور بنو غطفان میں سے ان کے حلیفوں نے بھی ان سے خیانت کی۔ رسول اللہ e نے ان کا محاصرہ کر لیا، ان کے کھجوروں کے باغات کاٹ کر نذر آتش کر دیے، بنونضیر نے پیغام بھیجا کہ ہم مدینہ سے نکل جائیں گے، رسول اللہ e نے ان پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اپنی اولاد کو لے کر نکل جائیں اور اسلحہ کے سوا وہ سب کچھ لے جائیں جو ان کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں۔ رسول اللہ e نے ان کے مال اور اسلحہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ بنونضیر کے اموال خالص رسول اللہ e کی مہمات اور مسلمانوں کے مصالح کے لیے تھے، آپ نے اس مال میں سے خمس نکالا، کیونکہ یہ مال اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوایا تھا، مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ ان پر چڑھائی نہیں کی تھی۔ رسول اللہ e نے بنونضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کر دیا، ان میں ان کا سردار حُیَيبن اخطب بھی شامل تھا اور ان کی اراضی اور گھروں پر قبضہ کر لیا۔ نیز ان کے اسلحہ کو بھی قبضہ میں لے لیا، اسلحہ میں پچاس زر ہیں، پچاس خود اور تین سو چالیس تلواریں ہاتھ لگیں۔ یہ ہے بنونضیر کے قصے کا ماحصل جیسا کہ اسے اہل سیرت نے بیان کیا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF