Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 57
- SuraName
- تفسیر سورۂ حدید
- SegmentID
- 1567
- SegmentHeader
- AyatText
- {20} يخبر تعالى عن حقيقة الدُّنيا وما هي عليه، ويبيِّن غايتها وغاية أهلها؛ بأنَّها {لعبٌ ولهوٌ}: تلعب بها الأبدان وتلهو بها القلوب، وهذا مصداقُه ما هو موجودٌ وواقعٌ من أبناء الدُّنيا؛ فإنَّك تجِدُهم قد قطعوا أوقاتَ عُمُرِهِم بلهوِ قلوبهم وغفلتهم عن ذكر الله وعمَّا أمامهم من الوعد والوعيد، وتراهم قد اتَّخذوا دينَهم لعباً ولهواً؛ بخلاف أهل اليقظة وعُمَّال الآخرة؛ فإنَّ قلوبَهم معمورةٌ بذكر الله ومعرفته ومحبَّته، وقد شغلوا أوقاتهم بالأعمال التي تقرِّبهم إلى الله من النفع القاصر والمتعدِّي. وقوله: {وزينةٌ}؛ أي: تزين في اللباس والطعام والشراب والمراكب والدُّور والقصور والجاه وغير ذلك، {وتفاخرٌ بينكم}؛ أي: كلُّ واحدٍ من أهلها يريد مفاخرةَ الآخر، وأن يكونَ هو الغالبَ في أمورها، والذي له الشهرةُ في أحوالها، {وتكاثرٌ في الأموال والأولادِ}؛ أي: كلٌّ يريدُ أن يكون هو الكاثر لغيره في المال والولد، وهذا مصداقُهُ وقوعُهُ من محبِّي الدُّنيا والمطمئنين إليها؛ بخلاف مَنْ عَرَفَ الدُّنيا وحقيقتها، فجعلها معبراً، ولم يجعلها مستقرًّا، فنافس فيما يقرِّبُه إلى الله، واتَّخذ الوسائل التي توصلُه إلى دار كرامته ، وإذا رأى من يكاثُره وينافسه في الأموال والأولاد؛ نافَسَه بالأعمال الصالحة. ثم ضرب للدُّنيا مثلاً بغيثٍ نزل على الأرض، فاختلط به نباتُ الأرض مما يأكُلُ الناسُ والأنعام، حتى إذا أخذتِ الأرضُ زُخْرُفَها، وأعجب نباتُه الكفارَ الذين قَصَروا نَظَرَهم وهِمَمَهم على الدُّنيا ؛ جاءها من أمرِ الله ما أتلفها، فهاجتْ ويبستْ وعادتْ إلى حالها الأولى ؛ كأنَّه لم ينبتْ فيها خضراءُ ولا رُإِيَ لها مَرْأَى أنيق، كذلك الدُّنيا؛ بينما هي زاهيةٌ لصاحبها زاهرةٌ؛ مهما أراد من مطالبها حصل، ومهما توجَّه لأمر من أمورها؛ وجد أبوابه مفتَّحة؛ إذ أصابها القَدَرُ، فأذهبها من يده، وأزال تسلُّطه عليها، أو ذهب به عنها، فرحل منها صفر اليدين؛ لم يتزَّود منها سوى الكفن، فتبًّا لمن أضحتْ هي غايةَ أمنيَّته ولها عمله وسعيه. وأما العمل للآخرة؛ فهو الذي ينفع ويُدَّخر لصاحبه ويصحب العبدَ على الأبد، ولهذا قال تعالى: {وفي الآخرة عذابٌ شديدٌ ومغفرةٌ من الله ورضوانٌ}؛ أي: حال الآخرة ما يخلو من هذين الأمرين: إمَّا العذابُ الشديدُ في نار جهنَّم وأغلالها وسلاسلها وأهوالها لمن كانت الدُّنيا هي غايتَهُ ومنتهى مطلبِهِ، فتجرَّأ على معاصي الله، وكذَّب بآيات الله، وكفر بأنعم الله، وإمَّا مغفرةٌ من الله للسيئات، وإزالةُ العقوبات، ورضوانٌ من الله يُحِلُّ من أحَلَّه عليه دارَ الرضوان لمن عرف الدُّنيا وسعى للآخرة سعيها؛ فهذا كلُّه مما يدعو إلى الزهد في الدنيا والرغبة في الآخرة، ولهذا قال: {وما الحياةُ الدُّنيا إلاَّ متاعُ الغُرور}؛ أي: إلاَّ متاعٌ يُتَمَتَّعُ به ويُنْتَفَعُ به ويُسْتَدْفَعُ به الحاجات؛ لا يغترُّ به ويطمئنُّ إليه إلاَّ أهل العقول الضعيفة، الذين يغرُّهم بالله الغرور.
- AyatMeaning
- [20] اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا اور ان کے امور کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جن پر دنیا کا دارومدار ہے، نیز دنیا اور دنیا والوں کی غایت و انتہا بیان فرماتا ہے۔ دنیا بس لہو و لعب ہے، جس کے ساتھ بدن کھیلتے ہیں اور اس کی وجہ سے قلب غافل ہوتے ہیں۔ جو کچھ دنیا میں موجود ہے اور ابنائے دنیا سے جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اس کا مصداق ہے۔ آپ ابنائے دنیا کو پائیں گے کہ انھوں نے اپنی عمر کے اوقات کو غفلت قلب میں صرف کیا اور وہ ذکر الٰہی اور آئندہ پیش آنے والے وعد و وعید سے غافل رہے۔ آپ اہل بیدار اور آخرت کے لیے عمل کرنے والوں کو ان کے برعکس دیکھیں گے ، کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی معرفت اور اس کی محبت سے معمور ہیں۔ وہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والے ایسے اعمال میں صرف کرتے ہیں جن کا فائدہ صرف ان کو پہنچتا ہے یا دوسروں کو بھی پہنچتا ہے ۔ اورفرمایا: ﴿ وَّزِیْنَةٌ﴾ یعنی لباس، مشروبات، سواریوں، گھروں، محلات اور دنیاوی جاہ وغیرہ کے ذریعے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے۔ ﴿ وَّتَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ﴾ ’’اور آپس میں فخر کرنا ہے۔‘‘ یعنی ان چیزوں کو رکھنے کے لیے ہر شخص دوسرے پر فخر کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان امور میں وہی غالب رہے اور ان احوال میں بس اسی کو شہرت حاصل رہے۔ ﴿ وَتَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ﴾ یعنی ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ وہ مال اور اولاد میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔ دنیا سے محبت کرنے والے اور اس پر مطمئن رہنے والے اس کا مصداق ہیں۔ اس کے برعکس وہ شخص جو دنیا اور اس کی حقیقت کو جانتا ہے، وہ اسے مستقل ٹھکانا نہیں بناتا بلکہ اسے گزرگاہ خیال کرتا ہے، وہ ایسے اعمال میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور ایسے وسائل اختیار کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں۔ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو اس کے ساتھ دنیا، مال و متاع اور اولاد کی کثرت میں مقابلہ کرتا ہے تو یہ اعمال صالحہ میں اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی کے لیے بارش کی مثال دی ہے، جو زمین پر برستی ہے اور اس کی نباتات کو سیراب کرتی ہے جس سے لوگ اور مویشی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین پوری طرح لہلہانے لگتی ہے اور اس کی نباتات کفار کو بھلی لگتی ہے جن کی نظر و ہمت صرف دنیا ہی پر مرکوز ہوتی ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم آ جاتا ہے جو اسے ہلاک کر دیتا ہے ۔یہ نباتات خشک ہو کر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاتی ہے، گویا کہ وہاں کبھی ہریالی اگی ہی نہیں تھی اور نہ وہاں کبھی کوئی خوبصورت منظر ہی دیکھا گیا تھا۔یہی حال اس دنیا کا ہے۔ یہ اپنے چاہنے والے کے لیے نہایت خوش نما اور خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ جب بھی اس دنیا میں سے اپنا مطلوب حاصل کرنا چاہتا ہے، حاصل کر لیتا ہے اور جب بھی وہ کسی دنیاوی معاملے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے دروازوں کو کھلا ہوا پاتا ہے۔ جب تقدیر نے اس کو آ لیا اور اس سے وہ سب کچھ چھین لیا جو اس کے ہاتھ میں تھا، اور اس پر سے اس کے تسلط کو زائل کر دیا یا اسے خوشنما دنیا سے دور کر دیا اور وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ روانہ ہوا اور کفن کے سوا اس کے پاس کوئی زاد راہ نہ تھا۔ پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس کی آرزو کی انتہا یہ دنیا ہے اور اسی کے لیے اس کے اعمال اور اس کی بھاگ دوڑ تھی۔ رہا وہ عمل جو آخرت کے لیے کیا جاتا ہے تو یہی وہ عمل ہے جو فائدہ دیتا ہے اور عمل کرنے والے کے لیے ذخیرہ کر دیا جاتا ہے اور ہمیشہ بندے کے ساتھ رہتا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ﴾ ’’اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے۔‘‘ یعنی آخرت کا حال ان دو امور سے خالی نہیں۔اولاً: تو اس شخص کے لیے جہنم کی آگ میں سخت عذاب، جہنم کی بیڑیاں اور زنجیریں اور اس کی ہولناکیاں ہوں گی جس کی غایت مقصود اور منتہائے مطلوب محض دنیا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کرتا ہے، آیات الٰہی کو جھٹلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی کرتا ہے۔ثانیاً: یا اس شخص کے لیے گناہوں کی بخشش، عقوبتوں کا ازالہ اور دار رضوان میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو گی، یہ سب اس شخص کے لیے ہے جس نے دنیا کی حقیقت کو پہچان لیا اور اس نے آخرت کے لے بھرپور کوشش کی۔یہ سب کچھ دنیا میں زہد اور آخرت میں رغبت کی دعوت دیتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْ٘غُرُوْرِ﴾ ’’اور دنیا کی زندگی تو محض متاع فریب ہے۔‘‘ یعنی یہ صرف ایسی متاع ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا اور اس سے ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں، اس کی وجہ سے فریب میں صرف وہی لوگ مبتلا ہوتے اور اس پر مطمئن رہتے ہیں جو ضعیف العقل ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [20]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF