Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 15
- SegmentHeader
- AyatText
- {29} أي: خلق لكم برًّا بكم ورحمة جميع ما على الأرض للانتفاع والاستمتاع والاعتبار. وفي هذه الآية الكريمة دليل على أن الأصل في الأشياء الإباحة والطهارة؛ لأنها سيقت في معرض الامتنان، يخرج بذلك الخبائث فإن تحريمها أيضاً يؤخذ من فحوى الآية، وبيان المقصود منها، وأنه خلقها لنفعنا، فما فيه ضرر؛ فهو خارج من ذلك، ومن تمام نعمته منعنا من الخبائث تنزيهاً لنا؛ وقوله: {ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (29)}. «استوى»: ترد في القرآن على ثلاثة معانٍ: فتارة لا تُعدَّى بالحرف فيكون معناها: الكمال والتمام، كما في قوله عن موسى: {ولما بلغ أشده واستوى}؛ وتارة تكون بمعنى علا وارتفع، وذلك إذا عديت «بعلى» كقوله تعالى: {الرحمن على العرش استوى} ؛ {لتستووا على ظهوره}؛ وتارة تكون بمعنى قصد كما إذا عُدِيت «بإلى» كما في هذه الآية، أي: لما خلق تعالى الأرض قصد إلى خلق السماوات فسواهن سبع سماوات فخلقها وأحكمها وأتقنها وهو بكل شيء عليم، فيعلم ما يلج في الأرض وما يخرج منها، وما ينزل من السماء وما يعرج فيها، ويعلم ما تسرون وما تعلنون، يعلم السر وأخفى. وكثيراً ما يقرن بين خلقه وإثبات علمه كما في هذه الآية وكما في قوله تعالى: {ألا يعلم من خلق وهو اللطيف الخبير}؛ لأن خلقه للمخلوقات أدل دليل على علمه وحكمته وقدرته.
- AyatMeaning
- [29] ﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ ’’وہی ہے جس نے پیدا کیا تمھارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب‘‘ یعنی اس نے تم پر احسان اور رحم کرتے ہوئے تمھارے فائدے، تمھارے تمتع اور تمھاری عبرت کے لیے زمین کی تمام موجودات کو پیدا کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل، اباحت اور طہارت ہے۔ (یعنی ہر چیز جائز اور پاک ہے) کیونکہ یہ آیت احسان جتلانے کے سیاق میں ہے۔ اس جواز سے تمام ناپاک چیزیں نکل جاتی ہیں، اس لیے کہ ان کی حرمت بھی فحوائے آیت اور بیان مقصود سے ماخوذ ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو ہمارے فائدے کے لیے تخلیق فرمایا ہے۔ لہٰذا ان میں سے جس کسی چیز میں کوئی نقصان ہے تو وہ اس اباحت سے خارج ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے کہ اس نے ہمیں خبائث سے منع کیا تاکہ ہم پاکیزہ رہیں۔ ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰۤؔؔى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’پھر قصد کیا اس نے آسمان کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘ کلمہ ’’اِسْتَوٰی‘‘ کے معانی : استویٰ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (۱)کبھی یہ حرف کے ساتھ مل کر متعدی نہیں ہوتا تب یہ ’’کمال‘‘ اور ’’اتمام‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰuکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰی﴾ (القصص : 28؍14) ’’جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور کامل جوان ہوا۔‘‘ (۲)کبھی یہ ارتفاع اور بلند ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ ’’عَلٰی‘‘ کے ساتھ متعدی ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلَرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہ : 20؍5) ’’رحمن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘ اور ارشاد ہے: ﴿لِتَسْتَوُوْا عَلَی ظُھُوْرِہٖ﴾ (الزخرف:43؍13) ’’تاکہ تم ان کی پیٹھ پر قرار پکڑو۔‘‘ (۳) اور کبھی یہ ’’قصد کرنے‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت یہ ’’اِلٰی‘‘ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو پھر اس نے آسمانوں کی تخلیق کا قصد کیا ﴿ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ﴾ ’’پھر اس نے انھیں ٹھیک سات آسمان بنا دیا‘‘ یعنی آسمانوں کو پیدا کیا، ان کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ ﴿ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی ﴿ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْ٘زِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا ﴾ (الحدید: 57؍4) ’’جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، جو کچھ زمین سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ آسمان میں چڑھتا ہے وہ اسے جانتا ہے۔‘‘ اور ﴿یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ﴾ (النحل: 16؍19) ’’جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ سب جانتا ہے۔‘‘ اور ﴿یَعْلَمُ السِّرَّوَاَخْفٰی﴾ (طٰہ20؍7) ’’وہ تمام بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنی قدرتِ تخلیق اور اپنے لیے اثباتِ علم کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا جیسا کہ اس آیت میں اور ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے: ﴿اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ الَّلطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ (الملک : 67؍14) ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، وہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ کیونکہ مخلوقات کو پیدا کرنا اس کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [29]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF