Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 199
- SegmentHeader
- AyatText
- {121} وذلك يوم أحد حين خرج - صلى الله عليه وسلم - بالمسلمين، حين وصل المشركون بجمعهم إلى قريب من أحد، فنزَّلهم - صلى الله عليه وسلم - منازلهم، ورتبهم في مقاعدهم، ونظمهم تنظيماً عجيباً، يدل على كمال رأيه وبراعته الكاملة في علوم السياسة، كما كان كاملاً في كل المقامات، {والله سميع عليم}؛ لا يخفى عليه شيء من أموركم.
- AyatMeaning
- [121] یہ آیات واقعۂ احد کے بارے میں نازل ہوئیں۔ اس کا قصہ معروف ہے جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں اسے بیان کرنے، اور اس کے درمیان میں بدر کا واقعہ لے آنے میں غالباً یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا، اور دشمن کی سازشوں سے انھیں محفوظ فرمائے گا۔ یہ ایک عام حکم اور سچا وعدہ تھا، جس کی شرائط پوری کی جاتیں تو اس کا پورا ہونا ناممکن نہیں تھا۔ ان دو قصوںمیں اس کا ایک نمونہ پیش فرما دیا کہ اللہ نے بدر میں مسلمانوں کی مدد اس لیے فرمائی تھی کہ انھوں نے صبر کیا اورتقویٰ اختیار کیا، اور احد میں انھیں دشمنوں کے ہاتھوں اس لیے نقصان پہنچا کہ ان میں سے بعض افراد سے ایسی غلطی ہوگئی جو تقویٰ کے منافی تھی، دونوں واقعات اکٹھے بیان کرنے کا یہ مقصد ہے کہ اللہ کو بندوں کا یہ عمل پسند ہے کہ جب انھیں کوئی نا خوشگوار صورت حال پیش آجائے تو انھیں وہ نعمت یاد کرنی چاہیے جو انھیں پسند ہے، تو ان کی مصیبت ہلکی ہوجائے گی اور وہ اس بڑی نعمت پر رب کا شکر کریں گے۔ جس کے مقابلے میں یہ ظاہری مصیبت، جو حقیقت میں نعمت ہی ہے، بڑی نعمت کے مقابلے میں بہت معمولی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ﴿ اَوَلَمَّؔاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا ﴾ ’’کیابات ہے کہ جب تمھیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے۔‘‘ واقعۂ احد کا خلاصہ یہ ہے کہ جب 2ھ میں جنگ بدر کے بعد بچے کھچے مشرکین مکہ پہنچے، تو انھوں نے اپنی طاقت کے مطابق مال، افراد اور اسلحہ کے ساتھ بھرپور تیاری کی، حتیٰ کہ اتنا کچھ جمع ہوگیا جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا مقصود حاصل کرنے اور اپنا غصہ نکالنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ تب وہ تین ہزار جنگجو افراد کا لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ کے قریب آٹھہرے۔ نبی اکرمeنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، تو طے پایا کہ شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ نبیeایک ہزار آدمی لے کر روانہ ہوئے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد عبداللہ بن ابی (منافق) اپنے جیسے تین سو افراد لے کر واپس پلٹ گیا۔ اس طرح اسلامی لشکر کی تعداد میں ایک تہائی مقدار کی کمی ہوگئی۔ مومنوں کے دو گروہ بھی پلٹ جانے کا سوچنے لگے۔ وہ بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے قبائل تھے۔ اللہ نے انھیں ثابت قدمی عطا فرمائی۔ جب احد کے مقام پر پہنچے تو نبیeنے لشکر کو ترتیب دے کر ان کے مختلف دستے اپنے اپنے مقام پر متعین فرمائے۔ احد کا پہاڑ ان کی پشت کی طرف تھا۔ انھوں نے اپنی پیٹھیں احد کی طرف رکھیں ۔ نبیeنے پچاس صحابہ کرام کو احد کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا، اور انھیں حکم دیا کہ وہیں ٹھہرے رہیں، اور وہ جگہ نہ چھوڑیں، تاکہ پیچھے سے دشمن کے حملہ کا خطرہ نہ رہے۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کے مابین جنگ ہوئی تو مشرکوں کو بری طرح شکست ہوئی، وہ اپنی لشکر گاہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کرکے انھیں قتل اور قید کرنا شروع کردیا۔ جن تیر اندازوں کو نبیeنے پہاڑ پر متعین فرمایا تھا، جب انھوں نے یہ صورت حال دیکھی تو (انھوں نے سوچا کہ اب ہمارا فرض مکمل ہوگیا ہے، اس لیے) انھوں نے آپس میں کہا، غنیمت! غنیمت! ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں جبکہ مشرکین شکست کھاچکے ہیں۔ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرtنے انھیں نصیحت فرمائی کہ رسول اللہeکی حکم عدولی نہ کریں۔ لیکن دوسروں نے اس طرف توجہ نہ دی۔ جب انھوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور وہاں صرف چند افراد رہ گئے، تو مشرکین کا گھڑسوار دستہ اس گھاٹی سے آگیا اور مسلمانوں کے پیچھے آکر لشکر کے پچھلے دستے پر حملہ کردیا۔ تب مسلمان کچھ ادھر ادھر ہوئے، جو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی۔ جس سے ان کے گناہ معاف ہوئے، اور تعمیل حکم میں کوتاہی کی سزا مل گئی۔ اس کے نتیجے میں جن کی قسمت میں شہادت تھی، وہ شہید ہوگئے۔ آخرکار مسلمان جبل احد کی چوٹی کی طرف جمع ہوگئے۔اللہ نے مشرکین کے ہاتھوں کو روک دیا اور وہ لوگ اپنے وطن کی طرف لوٹ گئے۔ رسول اللہeاور صحابہ کرام مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ ﴾ ’’اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ اپنے گھر سے نکلے‘‘ اس مقام پر (غدوت) کامطلب ’’مطلقاً نکلنا ہے‘‘ صبح کے وقت نکلنا نہیں۔ کیونکہ نبیeاور صحابہ کرامyجمعہ کی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے تھے۔ ﴿ تُبَوِّئُ الْ٘مُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ﴾ ’’مومنوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے‘‘ یعنی آپ انھیں ترتیب دے رہے تھے۔ اور ہر ایک کو اس مقام پر ٹھہرا رہے تھے جو اس کے لیے مناسب تھا۔ اس میں نبیeکی عظیم تعریف ہے کہ آپ بنفس نفیس ان کو منظم فرما رہے تھے اور جنگ کے لیے مناسب مقامات پر ٹھہرا رہے تھے۔ اس کی وجہ آپ کے علم و فراست کا کمال، دور اندیشی اور بلند ہمتی تھی۔ علاوہ ازیں آپ کامل شجاعت سے بہرہ ور تھے، صلوات اللہ وسلامہ علیہ ﴿وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے‘‘ جو ہر بات سنتا ہے۔ مومنوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور منافقوں کی بھی۔ ہر ایک کی بات چیت سے اس کے دل کے جذبات، احساسات اور خیالات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بندوں کی نیتوں کو جانتا ہے، وہ ان کے مطابق انھیں مکمل بدلہ عطا فرماتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مطلب بھی ہے کہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ تمھاری حفاظت کرتاہے۔ تمھارے معاملات سنوارتا ہے۔ اور تمھیں اپنی مدد سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰuاور ہارونuسے بھی اسی طرح فرمایا تھا: ﴿ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَاَرٰى ﴾ (طٰہٰ:20؍46) ’’میں تمھارے ساتھ ہوں، اور سنتا دیکھتا ہوں۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [121
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF