Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 51
- SuraName
- تفسیر سورۂ ذاریات
- SegmentID
- 1510
- SegmentHeader
- AyatText
- AyatMeaning
- اس قصے سے حاصل شدہ بعض فوائد (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ کے اپنے بندوں کے سامنے نیک اور بد لوگوں کے واقعات بیان کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ بندے ان سے عبرت حاصل کریں اور تاکہ معلوم ہو جائے کہ ان کے احوال نے انھیں کہا ں پہنچا دیا۔ (۲) اس قصے میں ابراہیم خلیل اللہu کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu سے قصے کی ابتدا کی جو اس قصے کی اہمیت کی دلیل ہے اور اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ (۳) یہ قصہ ضیافت کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے، نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا ابراہیمu کی عادت تھی، اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیe اور آپ کی امت کو حکم دیا ہے کہ وہ ملت ابراہیم کی اتباع کریں اور اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس قصے کو مدح و ثنا کے سیاق میں بیان کیا ہے۔ (۴) اس واقعہ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قول و فعل اور اکرام و تکریم کے مختلف طریقوں سے مہمان کی عزت و تکریم کی جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے مہمانوں کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ قابل تکریم ہیں ،یعنی حضرت ابراہیم نے ان کی عزت و تکریم کی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ حضرت ابراہیمu نے قول و فعل سے کس طرح ان کی مہمان نوازی کی، نیز یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ مہمان اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اکرام و تکریم سے بہرہ مند تھے۔ (۵) اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم u کا گھر، رات کے وقت آنے والے مسافروں اور مہمانوں کا ٹھکانا تھا۔ کیونکہ وہ اجازت طلب کیے بغیر حضرت ابراہیم کے گھر میں داخل ہوئے اور سلام میں پہل کرنے میں ادب کا طریقہ استعمال کیا اور حضرت ابراہیمu نے بھی کامل ترین سلام کے ساتھ ان کو جواب دیا کیونکہ جملہ اسمیہ ثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ (۶) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ انسان کے پاس جو کوئی آتا ہے یا اسے ملتا ہے، تو اس سے تعارف حاصل کرنا مشروع ہے کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں۔ (۷) یہ واقعہ بات چیت میں حضرت ابراہیم uکے آداب اور آپ کے لطف و کرم پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نے (اپنے مہمانوں سے ) فرمایا تھا : ﴿قَوْمٌ مُّنْؔكَرُوْنَ﴾ (الذاریات: 25/51) ’’تم اجنبی لوگ ہو۔‘‘ اور یہ نہیں فرمایا کہ (انکرتکم )’’میں تمھیں نہیں پہچانتا‘‘ اور دونوں جملوں میں جو فرق ہے وہ مخفی نہیں۔ (۸) یہ واقعہ مہمان نوازی میں جلدی کرنے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ بہترین نیکی وہ ہے جس پر جلدی سے عمل کیا جائے، اس لیے ابراہیم u نے مہمانوں کے سامنے ضیافت پیش کرنے میں عجلت کی۔ (۹) اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ذبیحہ (یا کھانا) جو کسی اور کے لیے تیار کیا گیا ہو، اسے مہمان کی خدمت میں پیش کرنے میں، اس کی ذرہ بھر اہانت نہیں بلکہ اس کی عزت و تکریم ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیمu نے کیا تھا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے مکرم مہمان تھے۔ (۱۰) اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu کو بکثرت رزق سے نواز رکھا تھا، اور یہ رزق ان کے پاس گھر میں ہر وقت تیار اور موجود رہتا تھا، انھیں بازار سے لانے کی ضرورت ہوتی تھی نہ پڑوسیوں سے مانگنے کی۔ (۱۱) اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم u نے خود بنفس نفیس مہمانوں کی خدمت کی حالانکہ آپ اللہ تعالیٰ کے خلیل اور مہمان نوازوں کے سردار تھے۔ (۱۲) اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم u نے مہمانوں کو اسی جگہ ضیافت پیش کی جہاں وہ موجود تھے۔ کسی اور جگہ ضیافت کے لیے انھیں نہیں بلایا کہ آئیے تشریف لائیے کیونکہ مہمان کو اپنی جگہ کھانا پیش کرنے میں مہمان کے لیے زیادہ آسانی اور بہتر ہے۔ (۱۳) اس واقعہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ مہمان کے ساتھ نرم کلامی اور ملاطفت سے پیش آنا چاہیے، خاص طور پر کھانا پیش کرتے وقت۔ کیونکہ حضرت ابراہیم نے نہایت نرمی سے اپنے مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا تھا۔ اور کہا تھا ﴿اَلَا تَاْكُلُوْنَ﴾ (الذاریات: 27/51)’’آپ تناول کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اور یہ نہیں کہا تھا: کُلُوا ’’کھانا کھا لو‘‘ بلکہ آپ نے اس قسم کے الفاظ استعمال فرمائے جن میں ’’درخواست اور التماس‘‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے ، چنانچہ فرمایا : ﴿اَلَا تَاْكُلُوْنَ﴾(الذاریات: 27/51)’’آپ کھانا تناول کیوں نہیں کرتے؟‘‘ چنانچہ حضرت ابراہیم u کی پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بہترین الفاظ استعمال کرے جو مہمان کے لیے مناسب اور لائق حال ہوں، مثلاً: آپ کا مہمانوں سے کہنا ’’کیا آپ کھانا تناول نہیں کریں گے؟‘‘ ’’ہمیں شرف بخشیے اور ہم پر عنایت کیجیے‘‘ اور اس قسم کے دیگر الفاظ۔ (۱۴) اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص، کسی بھی سبب کی بنا پر کسی سے خوفزدہ ہو جائے تو خوفزدہ کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ اس کے خوف کو زائل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے سامنے ایسی باتوں کا ذکر کرے جس سے اس کا خوف دور ہو اور وہ پرسکون ہو جائے۔ جیسا کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم u سے کہا تھا: جب وہ ان سے خوفزدہ ہو گئے تھے: ﴿ لَا تَخَفْ﴾ ’’ڈریے مت‘‘! اور انھوں نے حضرت ابراہیمu کو وہ خوش کن خبر سنائی۔ (۱۵) یہ قصہ حضرت ابراہیم u کی زوجۂ محترمہ کی بے انتہا مسرت و فرحت پر دلالت کرتا ہے حتیٰ کہ انھوں نے خوشی میں چلا کر بے ساختگی سے اپنا چہرہ پیٹ ڈالا۔ (۱۶) نیز اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور آپ کی زوجہ محترمہ کو ایک علم رکھنے والے بیٹے کی بشارت سے نوازا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF