Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 50
- SuraName
- تفسیر سورۂ قٓ
- SegmentID
- 1496
- SegmentHeader
- AyatText
- {8 ـ 11} وخصَّ من تلك المنافع [بالذكر] الجنَّات المشتملة على الفواكه اللَّذيذة من العنب والرُّمان والأترجِّ والتُّفاح وغير ذلك من أصناف الفواكه، ومن النخيل الباسقات؛ أي: الطوال، التي يطول نفعها ، وترتفع إلى السماء حتى تبلغ مبلغاً لا يبلغه كثيرٌ من الأشجار، فتخرجَ من الطلع النضيد في قنوانها ما هو رزقٌ للعباد قوتاً وأدماً وفاكهةً يأكلون منه ويدَّخرون هم ومواشيهم. وكذلك ما يخرج الله بالمطر، وما هو أثره من الأنهار التي على وجه الأرض و [التي] تحتها من {حبِّ الحصيدِ}؛ أي: من الزَّرع المحصود من بُرٍّ وشعير وذرة وأرزٍّ ودخن وغيره؛ فإن في النظر في هذه الأشياء {تبصرةً}: يُتَبَصَّر بها من عمى الجهل، {وذكرى}: يُتَذَكَّر بها ما ينفع في الدين والدنيا، ويُتَذَكَّر بها ما أخبر الله به وأخبرت به رسله، وليس ذلك لكلِّ أحدٍ، بل {لكلِّ عبدٍ منيبٍ} إلى الله؛ أي: مقبل عليه بالحبِّ والخوف والرجاء وإجابة داعيه، وأمَّا المكذِّب أو المعرض؛ فما تغني الآياتُ والنُّذُر عن قوم لا يؤمنون. وحاصلُ هذا أنَّ ما فيها من الخلق الباهر والقوَّة والشدَّة دليلٌ على كمال قدرة الله تعالى، وما فيها من الحسن والإتقان وبديع الصنعة وبديع الخلقة دليلٌ على أنَّ اللهَ أحكمُ الحاكمين، وأنَّه بكلِّ شيء عليمٌ، وما فيها من المنافع والمصالح للعباد دليلٌ على رحمة الله التي وسعت كل شيء، وجوده الذي عمَّ كلَّ حيٍّ، وما فيها من عظمة الخلقة وبديع النِّظام دليلٌ على أنَّ الله تعالى هو الواحدُ الأحدُ الفردُ الصمدُ الذي لم يتَّخذ صاحبةً ولا ولداً، ولم يكن له كفواً أحدٌ، وأنه الذي لا تنبغي العبادة والذُّلُّ والحبُّ إلاَّ له، وما فيها من إحياء الأرض بعد موتها دليلٌ على إحياء الله الموتى ليجازِيَهم بأعمالهم، ولهذا قال: {وأحْيَيْنا به بلدةً ميتاً كذلك الخروجُ}. ولمَّا ذكَّرهم بهذه الآيات السماوية والأرضيَّة؛ خوَّفهم أخذات الأمم، وألاَّ يستمرُّوا على ما هم عليه من التكذيب، فيصيبهم ما أصاب إخوانَهم من المكذِّبين، فقال:
- AyatMeaning
- [11-8] اور ان فوائد میں سے ان باغات کا خاص طور پر ذکر کیا جو لذیذ پھلوں پر مشتمل ہوتے ہیں، مثلاً: انگور، انار، لیموں اور سیب وغیرہ اور دیگر پھلوں کی تمام اقسام، نیز کھجور کے لمبے لمبے درخت، جن کا فائدہ بھی بہت طویل اور دیر پا ہوتا ہے۔ جو آسمان میں اتنے بلند ہو جاتے کہ بہت سے درخت اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتے۔ وہ تہ بہ تہ گابھے میں سے گچھوں کی صورت میں ایسا پھل نکالتے ہیں جو بندوں کے لیے رزق، خوراک، سالن اور میوہ ہے۔ جسے وہ کھاتے ہیں اور اپنے اور اپنے مویشیوں کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس بارش اور ان عوامل کے ذریعے سے، جس کے نتیجے میں روئے زمین پر دریا بہتے ہیں اور اس کے نیچے ﴿حَبَّ الْحَصِیْدِ﴾کھیتی کا اناج ہوتا ہے، یعنی وہ کھیتی جسے پکنے پر کاٹا جاتا ہے، مثلاً: گیہوں، جو، مکئی، چاول اور باجرہ وغیرہ۔کیونکہ ان اشیاء میں غور و فکر کرنے میں ﴿ تَبْصِرَةً﴾ ’’ہدایت ہے‘‘ جس کے ذریعے سے بندہ جہالت کے اندھے پن میں بصیرت حاصل کرتا ہے ﴿وَّذِكْرٰى﴾ ’’اور یاد دہانی ہے‘‘ جس سے نصیحت حاصل کرتا ہے جو دین و دنیا میں اسے فائدہ دیتی ہے اور اس کے ذریعے سے وہ ان امور میں نصیحت حاصل کرتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے، اور اس سے ہر شخص بہرہ مند نہیں ہوتا بلکہ ﴿ لِكُ٘لِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ﴾ صرف وہی بندہ بہرہ مند ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا، حق اور خوف و رجا کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرنے والا اور اس کے داعی کی آواز پر لبیک کہنے والا ہے۔ رہا وہ شخص جو اس نصیحت کو جھٹلاتا اور اس سے روگردانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور تنبیہ کرنے والے اسے کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اس زمین پر جو بڑی بڑی مخلوق ، قوت، اور شدت کا وجود ملتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے، اور اس میں جو حسن، مہارت، نادر صنعت کاری اور بے مثال تخلیق پائی جاتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کے اندر بندوں کے لیے جو فوائد اور مصالح پنہاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے جو ہر چیز پر وسیع اور اس کے جود و کرم کی دلیل ہے، جو ہر زندہ کے لیے عام اور سب کو شامل ہے۔ اس کے اندر جو بڑی بڑی مخلوق اور بے مثال نظام ہے وہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد، یکتا اور بےنیاز ہے، جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا، اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی عبادت، تذلل، اور محبت کے لائق نہیں۔ زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد جو اسے زندگی عطا ہوتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی مردوں کو زندہ کرے گا تاکہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَاَحْیَیْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّؔیْتًا١ؕ كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ﴾ ’’اور ہم نے اس (پانی) کے ذریعے سے مردہ شہرکو زندہ کیا بس اسی طرح (قیامت کے دن) نکل پڑنا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو سماوی ارضی اور آیات کے ذریعے سے نصیحت کرنے کے بعد قوموں کو گرفت میں لینے والے عذاب سے ڈرایا کہ وہ تکذیب کے رویے پر جمے نہ رہیں، ورنہ ان پر بھی وہی عذاب ٹوٹ پڑے گا جو ان کے تکذیب کرنے والے بھائیوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ فرمایا:
- Vocabulary
- AyatSummary
- [11-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF