Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 188
- SegmentHeader
- AyatText
- {96 ـ 97} يخبر تعالى بعظمة بيته الحرام، وأنه أول البيوت التي وضعها الله في الأرض لعبادته وإقامة ذكره، وأن فيه من البركات وأنواع الهدايات وتنوع المصالح والمنافع للعالمين شيء كثير وفضل غزير، وأن فيه آيات بينات تُذَكِّر بمقامات إبراهيم الخليل وتنقلاته في الحج ومن بعده تذكر بمقامات سيد الرسل وإمامهم، وفيه الأمن الذي من دخله كان آمناً قدراً مؤمناً شرعاً وديناً. فلما احتوى على هذه الأمور التي هذه مجملاتها وتكثر تفصيلاتها، أوجب الله حجّه على المكلفين المستطيعين إليه سبيلاً، وهو الذي يقدر على الوصول إليه بأي مركوب يناسبه وزاد يتزوده، ولهذا أتى بهذا اللفظ الذي يمكنه تطبيقه على جميع المركوبات الحادثة والتي ستحدث، وهذا من آيات القرآن حيث كانت أحكامه صالحة لكل زمان وكل حال ولا يمكن الصلاح التام بدونها. فمن أذعن لذلك وقام به فهو من المهتدين المؤمنين، ومن كفر فلم يلتزم حج بيته فهو خارج عن الدين، {ومن كفر فإن الله غني عن العالمين}.
- AyatMeaning
- [97,96] اللہ تعالیٰ کعبہ شریف کا شرف بیان فرما رہا ہے کہ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے اس مقصد کے لیے مقرر کیا ہے کہ وہ اس میں اپنے رب کی عبادت کریں اور ان کے گناہ معاف ہوں۔ اور انھیں وہ نیکیاں حاصل ہوں جن کی وجہ سے انھیں رب کی رضا حاصل ہو، اور وہ ثواب حاصل کرکے اللہ کے عذاب سے بچ جائیں، اس لیے فرمایا: ﴿مُبٰرَؔكًا﴾ ’’برکت والا ہے‘‘ اس میں بہت سی برکتیں، اور دینی و دنیوی فوائد موجود ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَ یَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج:22؍28) ’’تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں، اور ان مقررہ دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام یاد کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں‘‘ ﴿وَّهُدًى لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ﴾ ’’اور ہدایت ہے جہان والوں کے لیے‘‘ ہدایت کی دو قسمیں ہیں:علمی ہدایت اور عملی ہدایت۔ عملی ہدایت تو ظاہر ہے کہ اللہ نے ایسی عبادتیں مقرر کی ہیں جو اس مقدس گھر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ علمی ہدایت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حق کا علم حاصل ہوتاہے کیونکہ اس میں آیات بینات موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ﴾ ’’اس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں‘‘ یعنی مختلف علوم الٰہی اور بلند مطالب پر واضح دلائل اور قطعی براہین موجود ہیں۔ مثلاً اللہ کی توحید کے دلائل، اس کی رحمت، حکمت، عظمت، جلالت، اس کے کامل علم اوربے حد و حساب جودوسخا کے دلائل، اور انبیاء و اولیاء پر ہونے والے اللہ کے احسانات کی نشانیاں۔ ان نشانیوں میں سے ایک ﴿مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ﴾ بھی ہے۔ اس سے وہ پتھربھی مراد ہوسکتا ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیمuکعبہ کی عمارت بناتے رہے تھے۔ پہلے یہ کعبہ کی دیوار سے متصل تھا۔ حضرت عمرtنے اپنے دور خلافت میں اسے موجودہ مقام پر منتقل کیا۔ اس پتھر میں نشان سے مراد ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیمuکے قدموں کے نشان ہیں کہ سخت چٹان میں نشان پڑگئے جو امت محمدیہ کے ابتدائی زمانے تک باقی رہے۔ یہ ایک خرق عادت معجزہ ہے۔ دوسرے قول کے مطابق نشان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت، شرف اور احترام کے جذبات رکھ دیے ہیں۔ ’’مقام ابراہیم‘‘ کی دوسری تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ یہ لفظ مفرد ہے جسے ابراہیم کی طرف مضاف کیا گیا ہے، اس لیے اس سے مراد وہ تمام مقامات ہیں جن سے آپ کا تعلق ہے یعنی وہ تمام مقامات جہاں حج کے مناسک ادا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے حج کے تمام مناسک بھی ’’آیَاتِ بَیِّنَات‘‘ میں شامل ہیں، مثلاً طواف، سعی اور ان کے مقامات، عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنا، رمی کرنا اور دوسرے شعائر۔ اس میں نشانی یہ ہے کہ اللہ نے لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت و احترام نقش کردیا ہے۔ لوگ یہاں تک پہنچنے کے لیے مال و دولت خرچ کرتے اور ہر قسم کی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں عجیب و غریب اسرار اور اعلیٰ معنویات پوشیدہ ہیں۔ اس کے افعال میں وہ حکمتیں اورمصلحتیں ہیں کہ مخلوق ان میں سے تھوڑی سی حکمتیں شمار کرنے سے بھی عاجز ہے۔ اس کی کھلی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کو اللہ تعالیٰ امن عطا فرماتا ہے۔ اور اسے شرعی حکم بھی قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے پیغمبر ابراہیمuنے، پھر محمدeنے اس کے احترام کا حکم دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ جو اس میں داخل ہوجائے، اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔ اسے وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ یہ حرمت حرم کے شکار، درختوں اور نباتات کو بھی حاصل ہے۔ اس آیت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر کوئی جرم کرلے، پھر حرم میں آجائے تو اسے بھی امن حاصل ہوگا۔ جب تک وہ اس سے باہر نہیں آتا اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔ اللہ کے قضا و قدر کے فیصلے کے مطابق اس مقام کے امن ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں، حتیٰ کہ مشرکوں اور کافروں کے دلوں میں بھی اس کا احترام ڈال دیا۔ مشرکین عرب انتہائی لڑاکا طبیعت والے، غیرت والے اور کسی کا طعنہ برداشت نہ کرنے والے تھے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اپنے باپ کا قاتل بھی حرم کی حدود میں مل جاتا تھا تو وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کے حرم ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو اسے نقصان پہنچانا چاہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔ جیسے ہاتھی والوں کے ساتھ ہوا۔ اس موضوع پر میں نے ابن قیم رحمہ اللہ کا بہت اچھا بیان پڑھا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اسے یہاں ذکر کردوں، کیونکہ اس کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ امام صاحب aفرماتے ہیں: فائدہ: ﴿وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ اس آیت میں (حِجُّ الْبَیْتِ) مبتدا ہے۔ اس کی خبر اس سے پہلے دو جارو مجرور میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے۔ معنی کے لحاظ سے (عَلَى النَّاسِ) کو خبر بنانا بہتر ہے کیونکہ یہ وجوب کے لیے ہے۔ اور وجوب کے لیے (عَلَى) ہونا چاہیے۔ ممکن ہے لِلّٰہِ خبر ہو۔ کیونکہ اس میں وجوب اور استحقاق کا مفہوم ہے۔ اس قول کو اس امر سے بھی ترجیح حاصل ہوتی ہے کہ فائدہ کا اصل مقام خبر ہے۔ اس مقام میں اس کو لفظاً مقدم کیا گیا ہے لیکن معنی کے لحاظ سے وہ موخر ہے۔ اس وجہ سے (وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ) کہنا بہتر ہوا۔ پہلے قول کی تائید میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وجوب کے لیے (حِجُّ الْبَیْتِ عَلَی النَّاسِ) ’’بیت اللہ کا حج لوگوں پر واجب ہے‘‘ کا انداز زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ بہ نسبت یوں کہنے کہ ﴿حِجُّ الْبَیْتِ لِلہِ﴾ ’’بیت اللہ کا حج اللہ کا حق ہے۔‘‘ اس تشریح کے مطابق پہلے مجرور کو مقدم کرنا، حالانکہ وہ خبر نہیں، دو فوائد کا حامل ہے: پہلا فائدہ: یہ حج کو واجب کرنے والے (اللہ) کا نام ہے۔ لہٰذا وجوب کے ذکر سے پہلے اس کا ذکر کرنا زیادہ حق رکھتا ہے۔ یعنی آیت میں تین اشیا کا ذکر ہے جو وقوع کے لحاظ سے بالترتیب ذکر ہوئی ہیں: (۱)اس فریضہ کو واجب کرنے والا۔ اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے۔ (۲) واجب کو ادا کرنے والا، جس پر وہ فرض عائد ہوتا ہے۔ وہ ہیں لوگ (۳) وہ حق جس کے ساتھ اللہ کا تعلق واجب کرنے کا اور بندوں کا تعلق واجب ہونے اور ادا کرنے کا ہے، وہ ہے حج۔ دوسرا فائدہ: مجرور اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ہونے کی وجہ سے اہمیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا اس کے واجب کیے ہوئے فریضہ کے احترام کی عظمت کا لحاظ رکھے ہوئے، اس فریضہ کو ضائع کرنے سے منع کرنے کے لیے اسے پہلے ذکر کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ کا واجب کیا ہوا کام کسی اور کے واجب کیے ہوئے کی طرح نہیں، بلکہ زیادہ اہم اور لازم ہے۔ لفظ ’’ مَنْ ‘‘ بدل ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مصدر کا فاعل قرار دینا پسند کیا ہے گویا آیت کا مفہوم یوں ہے: أَنْ یَّحُجَّ الْبَیْتَ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِيْلًا ’’کہ جو شخص اس کی طرف راستے کی طاقت رکھتا ہے وہ بیت اللہ کا حج کرے‘‘ یہ قول کئی وجہ سے ضعیف ہے۔ (۱)حج فرض عین ہے۔ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے تو اس سے حج کا فریضہ فرض کفایہ ہوتا۔ یعنی جب استطاعت والوں نے حج کرلیا تو دوسروں کے ذمہ سے ساقط ہوگیا۔ اس صورت میں معنی یوں بن جاتا ہے وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتَ مُسْتَطِیعِہِمْ ’’لوگوں کے ذمے اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے استطاعت رکھنے والے کے لیے‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب استطاعت رکھنے والوں نے ادا کرلیا تو استطاعت نہ رکھنے والوں پر واجب نہیں رہا۔ حالانکہ صحیح صورت حال یہ نہیں۔ بلکہ حج ہر شخص پر فرض عین ہے۔ طاقت والا حج کرے یا نہ کرے وہ اس کے ذمے ہے۔ لیکن طاقت نہ رکھنے والے کو اللہ نے معذور قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس سے مواخذہ نہیں کرے گا، نہ اس سے ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب وہ حج کرے گا تو خود اس کا اپنا فرض ادا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ طاقت رکھنے والوں کے حج کرنے کی وجہ سے طاقت نہ رکھنے والوں سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہو۔ اس کی مزید وضاحت اس مثال سے ہوتی ہے کہ جب کوئی کہے (وَاجِبٌ عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ النَّاحِیَۃِ أَنْ یُّجَاہِدَ مِنْہُمُ الطَّائِفَۃُ الْمُسْتَطِیعُونَ لِلْجِہَادِ) ’’اس علاقے والوں کا فرض ہے کہ ان میں سے جہاد کی طاقت رکھنے والی جماعت ضرور جہاد کرے‘‘ تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جب طاقت رکھنے و الے جہاد کریں تو دوسرے لوگوں سے وجوب کا تعلق ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر یوں کہا جائے (واجب علی الناس کلہم ان یجاہد منہم المستطیع) ’’سب لوگوں کا فرض ہے کہ ان میں سے طاقت رکھنے والا جہاد کرے‘‘ تو وجوب کا تعلق تو ہر فرد سے ہوگا، لیکن طاقت نہ رکھنے والے معذور سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا (للہ حج البیت علی المستطیعین) کے بجائے آیت مبارکہ کے انداز سے ارشاد فرمانے میں یہ نادر نکتہ ہے۔ لہٰذا اسے غور کرکے سمجھنا چاہیے۔ دوسری وجہ: جملہ میں فاعل کی موجودگی میں مصدر کی اضافت فاعل کی طرف کرنا مفعول کی طرف اضافت کرنے کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اس اصول سے گریز صرف کسی منقول دلیل کی بنیاد پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ آیت مبارکہ میں اگر مَنْ کو فاعل تسلیم کیا جائے تو اس کا تقاضا ہے کہ مصدر کو اس کی طرف مضاف کرکے یوں کہا جائے: وللہ علی الناس حِجُّ مَنِ اسْتَطَاعَ اسے (یُعْجِبُنِیْ ضَرْبُ زیدٍ عَمْرًا) جیسی مثال پر یا مصدر اور اس کے مضاف الیہ فاعل کے درمیان مفعول یا ظرف کے فاصلے کی صورت پر محمول کرنا گویا مکتوب پر محمول کرنا ہے جو مرجوح ہے۔ جیسے ابن عامر کی یہ قراء ت مرجوح ہے (کذلک زُیِّن لکثیر من المشرکین قَتْلُ اولادھم شرکاۂم۔) لہٰذا یہ قول درست نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ من استطاع میں ’’من‘‘ بدل بعض ہے تو ضروری ہے کہ کلام میں کوئی ضمیر موجود ہو جو ’’الناس‘‘ کی طرف راجع ہو۔ یعنی عبارت گویا یوں ہے ’’من استطاع منہم‘‘ اکثر مقامات پر اس ضمیر کا حذف کرنا بہتر نہیں ہوتا۔ البتہ یہاں اس کا حذف کرنا اچھا ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں: (۱)’’من‘‘ کا لفظ اس کے مبدل منہ کی طرح غیر عاقل پر واقع ہوا ہے، اس لیے اس سے ربط قائم ہوگیا ہے۔ (۲)یہ اسم موصول ہے جس کا صلہ اس سے اخص ہے۔ اگر صلہ اعم ہوتا تو ضمیر حذف کرنا قبیح ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب آپ کہیں: (رأیت إخوتک من ذہب إلی السوق منہم) ’’میں نے تیرے بھائیوں کو، ان میں سے جو بازار گیا، دیکھا‘‘ تو یہ قبیح ہوگا۔ کیونکہ (ذاھب الی السوق) اعم ہے اخوۃ سے ۔اسی طرح اگر یوں کہا جائے: البس الثیاب ماحسن ’’کپڑے پہن جو اچھے ہیں‘‘ مطلب یہ ہو گا کہ (ماحسن منہا) ’’ان میں سے جو اچھے ہیں‘‘ تو ضمیر ذکر نہ کرنا زیادہ غلط ہوگا۔ کیونکہ لفظ ’’ما‘‘ میں ’’الثیاب‘‘ کی نسبت عموم پایا جاتا ہے۔ اور بدل بعض کو مبدل منہ سے زیادہ خاص ہونا چاہیے۔ اگر وہ زیاہ عام ہو، پھر اسے مبدل منہ کی طرف لوٹنے والی چیز کی طرف مضاف کردیا جائے یا اس ضمیر کے ساتھ مقید کردیا جائے تو عموم ختم ہوجائے گا اور خصوص کا مفہوم باقی رہ جائے گا۔ (۳)یہاں مضاف کو حذف کرنا اس لیے بھی بہتر ہے کہ صلہ اور موصول کے ساتھ کلام زیادہ طویل ہوجاتا ہے۔ لفظ لِلہِ کے مجرور کے بارے میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ وہ من سبیل کے محل میں ہو۔ گویا ہ وہ نکرہ کی صفت ہے جو نکرہ سے مقدم ہے۔ کیونکہ اگر اسے موخر کیا جاتا تو وہ سبیل کی صفت کی جگہ ہوتا۔ دوم یہ کہ ’’سبیل‘‘ کا متعلق ہو۔ اگر آپ کہیں کہ یہ اس کا متعلق کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اس (سبیل) میں فعل کا معنی نہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں سبیل کا مفہوم ’’الموصل الی البیت‘‘ کعبہ تک پہنچانے والی چیز یعنی سامان سفر وغیرہ ہے۔ لہٰذا س میں فعل کا تھوڑا سا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہاں سبیل سے وہ راستہ مراد نہیں جس پر چلتے ہیں، اس لیے جار مجرور اس کے متعلق ہوسکتا ہے۔ اور حسن نظم اور اعجاز لفظی کے لحاظ سے جار مجرور کو مقدم کرنا بہتر تھا، اگرچہ اس کا اصل مقام موخر ہی ہے، کیونکہ یہ ضمیر ’’بیت‘‘ کی طرف راجع ہے۔ اور اصل اہمیت بیت (کعبہ) ہی کو دینا مقصود ہے۔ اور اہل عرب کلام میں اہم چیز کو مقدم کرتے ہیں۔ یہ سہیلی کے کلام کی وضاحت ہے۔ لیکن یہ قول بہت بعید ہے۔ بلکہ جار مجرور کے متعلق ان دونوں سے بہتر ایک قول ہے، وہی درست ہے۔ اور اس آیت سے وہی مفہوم مناسبت رکھتا ہے۔ وہ ہے ’’وجوب‘‘ جو آیت کے لفظ ’’علی الناس‘‘ سے سمجھ میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ (یجب للہ علی الناس الحج) ’’لوگوں پر اللہ کے لیے حج کرنا واجب ہے۔‘‘ یعنی وہ اللہ کا وجوبی حق ہے۔ اسے ’’سبیل‘‘ کے متعلق قرار دے کر اس کا حال بنانا بہت ہی بعید ہے۔ آیت سے یہ مفہوم بالکل ذہن میں نہیں آتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں (للہ علیک الصلاۃ والزکاۃ والصیام) ’’آپ پر اللہ کے لیے نماز، زکاۃ اور روزہ ضروری ہے۔‘‘ آیت میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ایسے کام کا ذکر کرتا ہے، جسے واجب یا حرام قرار دینا مقصود ہو، تو وہ اکثر اوقات امرونہی کے الفاظ سے مذکور ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس مقصد کے لیے ایجاب، کتابۃ اور تحریم کے الفاظ بھی وارد ہوتے ہیں۔ مثلاً ﴿ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ ﴾ (البقرہ:2؍183) ’’تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ ﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ ﴾ (المائدۃ:5؍3) ’’تم پر مردار حرام کیا گیا ہے‘‘ ﴿ قُ٘لْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ ﴾ (الانعام:6؍151) ’’کہہ دیجیے! آؤ میں تمھیں پڑھ کر سناؤں کہ اللہ نے تم پر کیا پابندیاں لگائی ہیں۔‘‘ حج کے بارے میں جو لفظ استعمال ہوا ہے (وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ) ’’اس سے دس انداز سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو مقدم فرمایا ہے۔ اور اس پر ’’ل‘‘ داخل کیا ہے، جس سے استحقاق اور اختصاص ظاہر ہوتا ہے۔ پھر جن پر واجب ہے ان کے لیے عموم کا صیغہ استعمال کیا ہے، اور اس پر عَلٰی داخل کیا ہے، جس سے اہل استطاعت کو بدل بنایا ہے۔ پھر ’’سبیل‘‘ نکرہ ہے جو سیاق شرط میں واقع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ حج ہر قسم کے سبیل میسر ہونے سے واجب ہوجاتا ہے، مثلاً خوراک اور مال۔ یعنی وجوب کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جسے ’’سبیل‘‘کہا جاسکے۔ پھر اس کے بعد سب سے عظیم تہدید ذکر فرمائی اور فرمایا ﴿ وَمَنْ كَفَرَ ﴾ یعنی جس نے اس واجب پر عمل نہ کرکے اور اسے ترک کرکے کفر کا ارتکاب کیا۔ پھر اس کی عظمت شان کے لیے وعید کو موکد فرمایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ مستغنی ہے۔ اسے کسی کے حج کی ضرورت نہیں۔ یہاں استغنا کے ذکر کا مقصد ناراضی، غصے اور بے اعتنائی کا اظہار ہے، جو بہت عظیم اور بلیغ وعید ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہاں ’’العالمین‘‘ کا عام لفظ بولا گیا ہے۔ یہ نہیں فرمایا: (فان اللہ غنی عنہ) ’’اللہ اس سے مستغنی ہے‘‘ کیونکہ جب وہ تمام جہانوں سے مستغنی اور بے پروا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے اور ہر اعتبارسے کامل و مکمل استغنا حاصل ہے۔ اس طرح اس کے واجب کردہ حق کو ترک کرنے والے پر اس کی ناراضی زیادہ تاکید سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر اس مفہوم کو لفظ ’’ان‘‘ کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے جوبذات خود تاکید پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دس وجوہ ہیں جن سے اس فرض عظیم کا ضروری اور موکد ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت مبارکہ میں ’’بدل‘‘میں پوشیدہ نکتہ پر بھی غور کیجیے۔ بدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اسناد دوبارہ ذکر ہوئی ہے۔ ایک دفعہ اس کی اسناد عمومی طورپر سب لوگوں سے ہے اور دوسری بار خاص طورپر استطاعت رکھنے والوں سے۔ اور بدل کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسناد کی تکرار سے معنی میں قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی لیے بدل عامل کی تکرار اور دہرانے کا مفہوم رکھتا ہے۔ پھر غور کیجیے کہ آیت میں کس طرح ابہام کے بعد توضیح اور اجمال کے بعد تفصیل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اہمیت دیتے ہوئے اور اس کی شان کی تاکید فرماتے ہوئے کلام کو دو صورتوں میں وارد کیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ کس طرح وجوب کا ذکر کرنے سے پہلے کعبہ شریف کی خوبیوں اور عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے دلوں میں اس کی زیارت اور حج کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ چیز خود مقصود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ … الخ﴾ چنانچہ کعبہ شریف کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ (۱) وہ دنیا میں عبادت کے لیے مقرر کیا جانے والا سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے۔ (۲) برکت والا ہے۔ برکت کا مطلب خیر کا دوام اور کثرت ہے۔ دنیا میں اتنی برکت والا، اس قدر کثیر اور دائمی خیر والا، اور مخلوق کے لیے اس قدر فوائد کا حامل کوئی گھر موجود نہیں۔ (۳) وہ ہدایت ہے۔ ہدایت دینے والے کے بجائے ہدایت (مصدر) کا لفظ بولنے میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے گویا یہ خود سراپا ہدایت ہے۔ (۴) اس میں آیات بینات (واضح نشانیاں) موجود ہیں۔ جن کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔ (۵) اس میں داخل ہونے والے کے لیے امن ہے۔ اگر یہی صفات ذکر کردی جائیں اور اس کی زیارت کا حکم نہ دیا جاتا، تب بھی ان صفات کی وجہ سے دلوں میں اس کی زیارت کی تڑپ پیدا ہوتی، خواہ کتنی دور سے آنا پڑتا۔ یہاں تو یہ صفات ذکر کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ فرض ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس قدر تاکیدات لائی گئی ہیں، جن سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس گھر کی بے حد اہمیت ہے۔ اور اس کے نزدیک اس کی شان و عظمت کی کوئی حد نہیں۔ اگر اس میں یہی شرف ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے اسے (بیتی) (میرا گھر) فرمایا ہے، تو یہ نسبت ہی اتنی بڑی فضیلت اور اتنا بڑا شرف ہے کہ صرف اس کی وجہ سے جہان والوں کے دل اس کی طرف متوجہ ہوجاتے، اور اس کی زیارت کے لیے دور دراز سے کھنچے آتے۔ محبت کرنے والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ اس کے پاس اکٹھے ہوکر آتے ہیں، اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔ جتنی زیادہ زیارت کرتے ہیں، اتنا ہی محبت اور شوق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دور جانے سے محبت کی لو مدہم ہوتی ہے نہ وصال سے ان کی پیاس بجھتی ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے: میں اس کا طواف کرتا ہوں اور دل پھر بھی شوق سے بھرپور ہے کیا طواف کے بعد مزید قرب بھی ہوسکتا ہے؟ میں اس کے حجر اسود کو چومتا ہوں، اور اس طرح دل میں موج زن محبت اور پیاس کو ٹھنڈک پہنچانا چاہتا ہوں قسم ہے اللہ کی! میری محبت ہی میں اضافہ ہوتا ہے اور دل اور زیادہ دھڑکنے لگتا ہے۔ اے جنت ماویٰ! اے مقصود تمنا! اور اے میری آرزو! ہر امان سے قریب تر! غلبہ ہائے شوق تیرے قرب پر اصرار کرتے ہیں تجھ سے فراق میرے بس میں نہیں! میں اگر تجھ سے دور ہوا تو اس کی وجہ بے اعتنائی نہیں اس کا گواہ میری (اشک بار) آنکھیں اور (نالہ وشیون کرتی) زبان ہے۔ تجھ سے دور ہونے کے بعد میں نے صبر کو بھی آواز دی اور گریہ کو بھی گریہ نے (فوراً) لبیک کہا (اور آگیا) اور صبر نے میری بات نہ مانی (صبر نہ آیا) لوگ گمان کرتے ہیں کہ جب محب دور چلا جائے تو لمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی محبت کمزور ہوجاتی ہے۔ اگر یہ خیال درست ہوتا، تو یقیناً ہر زمانے کے لوگوں کے لیے محبت کا علاج ہوتا ہاں ہاں محب کمزور ہوجائے گا اور محبت اسی حال میں ہوگی، اسے رات دن کے گزرنے نے کمزور نہیں کیا ہوگا۔(امام ابن قیمa کا یہ کلام ان کی کتاب ’’بدائع الفوائد‘‘ سے منقول ہے۔ اس میں یہ شعر اس طرح درج ہے: (بلیٰ انہ یبلی التصبر و الہوی...علی حالہ لم یبلہ الملوان) ’’ہاں صبر تو کمزور ہوجاتا ہے لیکن محبت اپنے حال پر رہتی ہے، وہ رات دن کے گزرنے سے کمزور نہیں ہوتی) یہ محبت کرنے والا ہے، جسے شوق اور عشق لیے جاتا ہے بغیر کسی لگام اور باگ کے جو اسے کھینچے لے جاتی ہو۔ زیارت گاہ دور ہونے کے باوجود، وہ تیرے در پر آپہنچا ہے اگر اس کی سواری کمزور ہوجاتی تو اس کے قدم ہی اسے لے آتے۔ یہاں امام ابن قیم a کا کلام ختم ہوا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [97,
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF