Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 49
- SuraName
- تفسیر سورۂ حجرات
- SegmentID
- 1489
- SegmentHeader
- AyatText
- {9} هذا متضمِّنٌ لنهي المؤمنين عن أن يبغيَ بعضُهم على بعض ويقتلَ بعضُهم بعضاً، وأنه إذا اقتتلتْ طائفتان من المؤمنين؛ فإن على غيرهم من المؤمنين أن يتلافَوْا هذا الشرَّ الكبير بالإصلاح بينهم والتوسُّط على أكمل وجه يقع به الصلحُ ويسلكوا الطرق الموصلة إلى ذلك؛ فإن صلحتا؛ فبها ونعمت. {فإن بغتْ إحداهُما على الأخْرى فقاتِلوا التى تبغي حتى تفيءَ إلى أمرِ اللهِ}؛ أي: ترجع إلى ما حدَّ الله ورسولُه من فعل الخير وترك الشرِّ الذي من أعظمه الاقتتال. وقولُه: {فإن فاءتْ فأصْلِحوا بينَهما بالعَدْلِ}: هذا أمرٌ بالصُّلح وبالعدل في الصلح؛ فإنَّ الصُّلح قد يوجد، ولكن لا يكون بالعدل، بل بالظُّلم والحيف على أحد الخصمين؛ فهذا ليس هو الصُّلح المأمورُ به، فيجب أن لا يراعَى أحدهما لقرابةٍ أو وطنٍ أو غير ذلك من المقاصد والأغراض، التي توجب العدول عن العدل. {إنَّ اللهَ يحبُّ المُقْسِطينَ}؛ أي: العادلين في حكمهم بين الناس، وفي جميع الولايات التي تولوها، حتى إنه قد يدخل في ذلك عدلُ الرجل في أهله وعيالِه في أداء حقوقهم، وفي الحديث الصحيح: «المقسِطون عند الله على منابرَ من نورٍ؛ الذين يعدِلون في حكمِهم وأهليهم وما ولوا».
- AyatMeaning
- [9] یہ آیت کریمہ، اہل ایمان کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے سے روکنے کو متضمن ہے، نیز یہ کہ جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دیگر اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ ان دو گروہوں کے درمیان پڑ کر، جس کے ذریعے سے ان کے مابین صلح ہو جائے، اور ان کے درمیان اصلاح کے ذریعے سے، اس بہت بڑے شر کی تلافی کریں اور وہ ذرائع اختیار کریں جو صلح پر منتج ہوتے ہوں۔ اگر وہ دونوں گروہ باہم صلح کر لیں تو بہت اچھی بات ہے ﴿ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰؔىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَ٘بْغِیْ حَتّٰى تَ٘فِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ﴾ ’’اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔‘‘ یعنی اس حد کی طرف لوٹ آئیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے یعنی فعل خیر اور ترک شر۔ اور سب سے بڑا شر آپس میں لڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ ﴾ ’’پس جب وہ رجوع کرلے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔‘‘ صلح اور صلح میں عدل و انصاف کا حکم ہے کیونکہ کبھی کبھار صلح تو ہوتی ہے مگر عدل و انصاف پر نہیں بلکہ ظلم اور کسی ایک فریق پر زیادتی پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے یہ وہ صلح نہیں جس کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا لازم ہے کہ فریقین میں سے کسی کی کسی قرابت یا وطن یا دیگر اغراض و مقاصد کے حوالے سے رعایت نہ رکھی جائے، جو عدل و انصاف سے انحراف کے موجب بنتے ہیں۔ ﴿ وَاَقْسِطُوْا ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾ ’’اور عدل کرو بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جو لوگوں کے درمیان اپنے فیصلوں اور ان تمام ذمہ داریوں میں جن پر ان کو متعین کیا جاتا ہے انصاف سے کام لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس میں وہ عدل و انصاف بھی داخل ہے جو انسان اپنے اہل و عیال کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں کرتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر فائز ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال میں اور منصبی ذمہ داریوں میں انصاف کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 1827)
- Vocabulary
- AyatSummary
- [9]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType