Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 47
- SuraName
- تفسیر سورۂ محمد
- SegmentID
- 1462
- SegmentHeader
- AyatText
- {20 ـ 21} ثم ندبهم تعالى إلى ما هو الأليقُ بحالهم، فقال: {فأولى لهم. طاعةٌ وقولٌ معروفٌ}؛ أي: فأولى لهم أن يمتثلوا الأمر الحاضر المحتَّم عليهم، ويَجْمَعوا عليه هِمَمَهم، ولا يطلبوا أن يَشْرَعَ لهم ما هو شاقٌّ عليهم، وليفرَحوا بعافية الله تعالى وعفوِهِ، {فإذا عزم الأمر}؛ أي: جاءهم أمر جدٍّ وأمر محتَّم، ففي هذه الحال، لو {صَدَقوا الله}: بالاستعانة به وبذل الجهد في امتثاله، {لكان خيراً لهم}: من حالهم الأولى، وذلك من وجوه: منها: أنَّ العبد ناقصٌ من كلِّ وجه، لا قدرة له إلاَّ إن أعانه الله؛ فلا يطلب زيادة على ما هو قائم بصدده. ومنها: أنَّه إذا تعلَّقت نفسُه بالمستقبل؛ ضعف عن العمل بوظيفة وقته الحاضر وبوظيفة المستقبل، أما الحال؛ فلأنَّ الهمَّة انتقلت عنه إلى غيره، والعمل تبعٌ للهمَّة. وأما المستقبل؛ فإنَّه لا يجيء حتى تفتُرَ الهمَّة عن نشاطها، فلا يُعان عليه. ومنها: أنَّ العبد المؤمِّل للآمال المستقبلة، مع كسله عن عمل الوقت الحاضر، شبيهٌ بالمتألِّي الذي يجزم بقدرته على ما يستقبل من أموره؛ فأحرى به أن يُخْذَلَ ولا يقوم بما همَّ به و [وطّن] نفسه عليه؛ فالذي ينبغي أن يجمع العبد همَّه وفكرتَه ونشاطَه على وقته الحاضر، ويؤدِّي وظيفته بحسب قدرته، ثم كلَّما جاء وقتٌ؛ استقبله بنشاط وهمَّةٍ عاليةٍ مجتمعةٍ غير متفرِّقة، مستعيناً بربِّه في ذلك؛ فهذا حريٌّ بالتوفيق والتسديد في جميع أموره.
- AyatMeaning
- [21,20] ﴿ فَاَوْلٰى لَهُمْۚ۰۰ طَاعَةٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ﴾ یعنی ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ موجودہ حکم ہی کی تعمیل کریں جو ان پر واجب کیا گیا ہے، اسی پر اپنے ارادوں کو جمع رکھیں اور یہ مطالبہ نہ کریں کہ ان کے لیے ایسا حکم مشروع کیا جائے جس کی تعمیل ان پر شاق گزرے۔ اور انھیں اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ عفو و عافیت پر خوش ہونا چاہیے۔ ﴿ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ﴾ ’’پس جب بات پختہ ہوگئی۔‘‘ یعنی جب کوئی سخت اور واجب معاملہ آ گیا تو اس حال میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر کے اور اس کی اطاعت میں پوری کوشش کے ذریعے سے، اس کے ساتھ صدق کا معاملہ رکھتے ﴿ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ﴾ تو یہ حال ان کے پہلے حال سے بہتر ہوتا، اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں: (۱) بندہ ہر لحاظ سے ناقص و ناتمام ہے، اسے کوئی قدرت حاصل نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے، لہٰذا وہ اس سے زیادہ طلب نہ کرے جس کے کنارے پر وہ کھڑا ہوا ہے۔ (۲) جب اس کا نفس مستقبل سے متعلق ہو جاتا ہے، تو وہ حاضر اور مستقبل کے کام پر عمل کرنے میں کمزوری دکھاتا ہے۔ رہی موجودہ صورتِ حال، تو ارادہ اور ہمت، اس سے نکل کر دوسری طرف (مستقبل کی امیدوں میں) منتقل ہو جاتے ہیں اور عمل ارادے کے تابع ہوتا ہے اور رہا مستقبل تو اس کے آتے آتے ہمت جواب دے جاتی ہے تو اسے کسی کام کی توفیق اور مدد حاصل نہیں ہوتی۔ تب اس کے خلاف مدد نہیں کی جاتی۔ (۳) وہ بندہ جو وقت موجود میں، عمل میں اپنی سستی اور کاہلی کے باوجود مستقبل سے امیدیں وابستہ کرتا ہے، وہ اس سست اور کوتاہ اندیش آدمی کی طرح ہے جسے مستقبل میں پیش آنے والے امور پر قدرت رکھنے کا قطعی یقین ہے۔ اس کے لائق یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جائے اور جس امر کا ارادہ کیا ہے اسے نہ کرے اور نفس کو اس پر آمادہ کر لیا ہے ۔مناسب ہے کہ بندہ اپنے ارادے، اپنی فکر اور اپنی نشاط کو وقت موجود پر مجتمع کرے اور اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق اپنے وظیفے کو ادا کرے۔ پھر جب بھی کوئی وقت آئے تو نشاط اور مجتمع بلند ارادے کے ساتھ کسی تفرقہ کے بغیر اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے اس کا استقبال کرے۔ پس یہ شخص اپنے تمام امور میں توفیق اور درستی عطا کیے جانے کا مستحق ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [21,
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF