Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 47
- SuraName
- تفسیر سورۂ محمد
- SegmentID
- 1461
- SegmentHeader
- AyatText
- {19} العلم لا بدَّ فيه من إقرار القلب ومعرفتِهِ بمعنى ما طُلِبَ منه علمه، وتمامه أن يعملَ بمقتضاه. وهذا العلم الذي أمر اللهُ به، وهو العلم بتوحيد الله، فرضُ عينٍ على كلِّ إنسان، لا يسقطُ عن أحدٍ كائناً مَن كان، بل كلٌّ مضطرٌّ إلى ذلك. والطريق إلى العلم بأنَّه لا إله إلاَّ الله أمورٌ: أحدُها ـ بل أعظمها ـ: تدبُّر أسمائه وصفاته وأفعاله الدالَّة على كماله وعظمتِهِ وجلالِهِ؛ فإنَّها توجب بذل الجهد في التألُّه له والتعبُّد للربِّ الكامل الذي له كلُّ حمدٍ ومجدٍ وجلال وجمال. الثاني: العلمُ بأنَّه تعالى المنفردُ بالخلق والتدبير، فيعلم بذلك أنَّه المنفرد بالألوهية. الثالث: العلم بأنَّه المنفرد بالنعم الظاهرة والباطنة الدينيَّة والدنيويَّة؛ فإنَّ ذلك يوجب تعلُّق القلب به ومحبَّته والتألُّه له وحده لا شريك له. الرابع: ما نراه ونسمعه من الثوابِ لأوليائِهِ القائمين بتوحيدِهِ من النصر والنعم العاجلة، ومن عقوبتِهِ لأعدائِهِ المشركين به؛ فإنَّ هذا داعٍ إلى العلم بأنَّه تعالى وحده المستحقُّ للعبادة كلِّها. الخامس: معرفة أوصاف الأوثان والأنداد التي عُبِدَتْ مع الله واتُّخِذت آلهة، وأنَّها ناقصةٌ من جميع الوجوه، فقيرةٌ بالذات، لا تملك لنفسها ولا لعابديها نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، ولا ينصرون مَن عبدهم ولا ينفعونهم بمثقال ذرَّةٍ من جلب خيرٍ أو دفع شرٍّ؛ فإنَّ العلم بذلك يوجب العلم بأنَّه لا إله إلا الله وبطلان إلهيَّة ما سواه. السادس: اتِّفاق كتب الله على ذلك وتواطؤها عليه. السابع: أن خواصَّ الخلق الذين هم أكملُ الخليقة أخلاقاً وعقولاً ورأياً وصواباً وعلماً ـ وهم الرسلُ والأنبياءُ والعلماء الربانيُّون ـ قد شهِدوا لله بذلك. الثامن: ما أقامه الله من الأدلَّة الأفقيَّة والنفسيَّة التي تدلُّ على التوحيد أعظم دلالةٍ وتنادي عليه بلسان حالها بما أوْدَعَها من لطائف صنعتِهِ وبديع حكمتِهِ وغرائب خلقِهِ؛ فهذه الطرق التي أكثر الله من دعوةِ الخلق بها إلى أنَّه لا إله إلاَّ الله، وأبداها في كتابه وأعادها، عند تأمُّل العبد في بعضها؛ لا بدَّ أن يكون عنده يقينٌ وعلمٌ بذلك؛ فكيف إذا اجتمعت وتواطأت واتَّفقت وقامت أدلَّة للتوحيد من كلِّ جانب؟! فهناك يرسخُ الإيمان والعلم بذلك في قلب العبد؛ بحيث يكون كالجبال الرواسي، لا تزلزِلُه الشُّبه والخيالات، ولا يزداد على تكرُّر الباطل والشُّبه إلاَّ نموًّا وكمالاً. هذا، وإن نظرتَ إلى الدليل العظيم والأمر الكبير ـ وهو تدبُّر هذا القرآن العظيم والتأمُّل في آياته؛ فإنَّه البابُ الأعظم إلى العلم بالتوحيد، ويحصُلُ به من تفاصيله وجمله ما لا تحصل في غيره. وقوله: {واستغفر لذنبِك}؛ أي: اطلب من الله المغفرة لذنبك؛ بأنْ تفعلَ أسباب المغفرةِ من التوبة والدُّعاء بالمغفرة والحسنات الماحية وترك الذُّنوب والعفو عن الجرائم، {و} استغفر أيضاً {للمؤمنين والمؤمناتِ}؛ فإنَّهم بسبب إيمانهم كان لهم حقٌّ على كلِّ مسلم ومسلمةٍ، ومن جملة حقوقهم أن يُدعَى لهم ويُسْتَغْفَرَ لذُنوبهم، وإذا كان مأموراً بالاستغفار لهم المتضمِّن لإزالة الذُّنوب وعقوباتها عنهم؛ فإنَّ من لوازم ذلك النُّصح لهم، وأن يحبَّ لهم من الخير ما يحبُّ لنفسه، ويكره لهم من الشرِّ ما يكرهُ لنفسِهِ، ويأمرهم بما فيه الخيرُ لهم، وينهاهم عمَّا فيه ضررُهم، ويعفو عن مساويهم ومعايبهم، ويحرصُ على اجتماعهم اجتماعاً تتألف به قلوبُهم، ويزول ما بينهم من الأحقاد المفضية للمعاداة والشقاق، الذي به تكثُرُ ذنوبهم ومعاصيهم. {واللهُ يعلم مُتَقَلَّبَكُم}؛ أي: تصرُّفاتكم وحركاتكم وذهابكم ومجيئكم، {ومَثْواكم}: الذي به تستقرُّون؛ فهو يعلمكم في الحركات والسَّكَنات، فيجازيكم على ذلك أتمَّ الجزاء وأوفاه.
- AyatMeaning
- [19] علم میں اقرارِ قلب اور اس معنی کی معرفت، جو علم اس سے طلب کرتا ہے، لازمی امر ہے اور علم کی تکمیل یہ ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا جائے۔ اور یہ علم جس کے حصول کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم ہے اور ہر انسان پر فرض عین ہے اور کسی پر بھی، خواہ وہ کوئی بھی ہو، ساقط نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کے لیے اس کا حصول ضروری ہے۔ اس علم کے حصول کا طریق کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، چند امور پر مبنی ہے: (۱) سب سے بڑا امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال میں تدبر کیا جائے جو اس کے کمال اور اس کی عظمت و جلال پر دلالت کرتے ہیں۔ کیونکہ اسماء و صفات میں تدبر، عبادت میں کوشش صرف کرنے اور رب کامل کے لیے تعبد کا موجب ہوتا ہے جو ہر قسم کی حمد و مجد اور جلال و جمال کا مالک ہے۔ (۲) اس حقیقت کا علم کہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے، اس کے ذریعے سے اس بات کا علم حاصل ہو گا کہ وہ الوہیت میں بھی متفرد ہے۔ (۳) اس امر کا علم کہ ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کرنے میں وہ متفرد ہے۔ یہ علم دل کے اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے، اس سے محبت کرنے، اس اکیلے کی عبادت کرنے کا موجب بنتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ (۴) ہم یہ جو دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے لیے، جو اس کی توحید کو قائم کرتے ہیں، فتح و نصرت اور دنیاوی نعمتیں ہیں اور اس کے دشمن مشرکین کے لیے سزا اور عذاب ہے… یہ چیز اس علم کے حصول کی طرف دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور تمام تر عبادت کا وہی مستحق ہے۔ (۵) ان بتوں اور خود ساختہ ہم سروں کے اوصاف کی معرفت، جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے اور انھیں معبود بنا لیا گیا ہے، کہ یہ ہر لحاظ سے ناقص اور بالذات محتاج ہیں، یہ خود اپنے لیے اور اپنے عبادت گزاروں کے لیے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، ان کے اختیار میں زندگی ہے نہ موت اور نہ یہ دوبارہ زندگی ہی عطا کر سکتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے جو ان کی عبادت کرتے ہیں بھلائی عطا کرنے اور شر کو دور کرنے میں ان کے ذرہ بھر کام نہیں آ سکتے۔ کیونکہ ان اوصاف کا علم، اس حقیقت کے علم کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، نیز یہ علم اللہ کے ماسوا کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہے۔ (۶) حقیقت توحید پر اللہ تعالیٰ کی تمام کتابیں اتفاق کرتی ہیں۔ (۷) اللہ تعالیٰ کے خاص بندے، جو اخلاق، عقل، رائے، صواب اور علم کے اعتبار سے اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ کامل ہیں، یعنی انبیاء و مرسلین اور علمائے ربانی، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔ (۸) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو دلائل افقیہ اور نفسیہ قائم کیے ہیں، جو توحید الٰہی پر سب سے بڑی دلیل ہیں، اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اس کی باریک کاری گری، اس کی عجیب و غریب حکمتوں اور اس کی انوکھی تخلیق کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقے ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کثرت سے اس امر کی دعوت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ان کو اپنی کتاب میں نمایاں طور پر بیان کیا ہے اور بار بار ان کا اعادہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض پر غور و فکر کرنے سے بندے کو علم اور یقین حاصل ہونا، ایک لازمی امر ہے، تب بندے کو کیوں کر علم اور یقین حاصل نہ ہو گا جب دلائل ہر جانب سے مجتمع اور متفق ہو کر توحید پر دلالت کرتے ہوں۔ یہاں بندۂ مومن کے دل میں، توحید پر ایمان اور اس کا علم راسخ ہو کر پہاڑوں کی مانند بن جاتے ہیں، شبہات و خیالات انھیں متزلزل نہیں کر سکتے، باطل اور شبہات کے بار بار وارد ہونے سے ان کی نشوونما اور ان کے کمال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر آپ اس عظیم دلیل اور بہت بڑے معاملے کو دیکھیں اور وہ ہے قرآن عظیم میں تدبر اور اس کی آیات میں غور و فکر... تو یہ علم توحید تک پہنچنے کے لیے بہت بڑا دروازہ ہے، اس کے ذریعے سے توحید کی وہ تفاصیل حاصل ہوتی ہیں جو کسی دوسرے طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی بخشش طلب کیجیے، یعنی توبہ مغفرت کی دعا، ایسی نیکیوں کے ذریعے سے جو گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، گناہوں کو ترک اور جرائم کو معاف کر کے مغفرت کے اسباب پر عمل کیجیے۔﴿ وَ﴾ ’’اور‘‘ اسی طرح بخشش طلب کیجیے ﴿لِلْمُؤْمِنِیْنَ۠ وَالْمُؤْمِنٰتِ﴾ مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے کیونکہ وہ اپنے ایمان کے سبب سے، ہر مسلمان مرد اور عورت پر حق رکھتے ہیں اور ان کے جملہ حقوق میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ ان کے لیے دعا کی جائے اور ان کے گناہوں کی بخشش مانگی جائے۔ جب آپ ان کے لیے استغفار پر مامور ہیں جو ان سے گناہوں اور ان کی سزا کے ازالے کو متضمن ہے تب اس کے لوازم میں سے ہے کہ ان کی خیر خواہی کی جائے، ان کے لیے بھلائی کو پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، ان کے لیے برائی کو ناپسند کریں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، انھیں ان کاموں کا حکم دیں جن میں ان کے لیے بھلائی ہے اور ان کاموں سے روکیں جن سے ان کو ضرر پہنچتا ہے، ان کی کوتاہیوں اور عیبوں کو معاف کر دیں، ان کے ساتھ اس طرح اکٹھے رہنے کی خواہش رکھیں جس سے ان کے دل اکٹھے رہیں، اور ان کے درمیان کینہ اور بغض زائل ہو جو عداوت اور ایسی مخالفت کا سبب بنتا ہے جس سے ان کے گناہ اور معاصی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ﴿ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ حرکات و تصرفات اور تمھاری آمدورفت کو خوب جانتا ہے۔ ﴿وَمَثْوٰىكُمْ﴾ اور تمھاری رہائش کی جگہ کو بھی جانتا ہے۔ جہاں تم ٹھہرتے ہو وہ تمھاری حرکات و سکنات کو جانتا ہے۔ وہ تمھیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [19]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF