Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 42
- SuraName
- تفسیر سورۂ شورٰی
- SegmentID
- 1390
- SegmentHeader
- AyatText
- {13} هذه أكبرُ منَّةٍ أنعم الله بها على عباده أنْ شَرَعَ لهم من الدين خيرَ الأديان وأفضلَها وأزكاها وأطهرَها، دين الإسلام، الذي شَرَعَه الله للمصطَفَيْن المختارين من عباده، بل شَرَعَه الله لخيار الخيار وصفوة الصفوة، وهم أولو العزم من المرسلين، المذكورون في هذه الآية، أعلى الخلق درجة وأكملهم من كلِّ وجه؛ فالدين الذي شرعه الله لهم لا بدَّ أن يكون مناسباً لأحوالهم موافقاً لكمالهم، بل إنَّما كَمَّلَهم الله، واصطفاهم بسبب قيامهم به؛ فلولا الدين الإسلاميُّ؛ ما ارتفع أحدٌ من الخلق؛ فهو روح السعادة وقطبُ رحى الكمال، وهو ما تضمَّنه هذا الكتاب الكريم ودعا إليه من التوحيد والأعمال والأخلاق والآداب. ولهذا قال: {أنْ أقيموا الدِّين}؛ أي: أمركم أن تقيموا جميعَ شرائع الدِّين أصوله وفروعه؛ تقيمونه بأنفسكم، وتجتهدون في إقامته على غيركم، وتعاونون على البرِّ والتَّقوى، ولا تعاونون على الإثم والعدوان، {ولا تتفرَّقوا فيه}؛ أي: ليحصل منكم الاتِّفاق على أصول الدين وفروعه، واحرصوا على أن لا تفرِّقَكم المسائل وتحزِّبَكم أحزاباً، فتكونون شيعاً يعادي بعضُكم بعضاً مع اتِّفاقكم على أصل دينكم. ومن أنواع الاجتماع على الدين وعدم التفرق فيه ما أمر به الشارعُ من الاجتماعات العامَّة؛ كاجتماع الحجِّ والأعياد والجُمَع والصَّلوات الخمس والجهاد وغير ذلك من العبادات التي لا تتمُّ ولا تَكْمُلُ إلاَّ بالاجتماع لها وعدم التفرُّق. {كَبُرَ على المشركين ما تَدْعوهم إليه}؛ أي: شقَّ عليهم غايةَ المشقَّة؛ حيث دعوتَهم إلى الإخلاص لله وحدَه؛ كما قال عنهم: {وإذا ذُكِرَ اللهُ وحدَه اشمأزَّت قلوبُ الذين لا يؤمنون بالآخرة وإذا ذُكِرَ الذين من دونِهِ إذا هم يستبشرونَ}، وقولهم: {أجَعَلَ الآلهةَ إلهاً واحداً إنَّ هذا لشيءٌ عُجابٌ}. {الله يَجْتبي إليه مَن يشاءُ}؛ أي: يختار من خليقتِهِ مَنْ يعلم أنَّه يَصْلُحُ للاجتباء لرسالتِهِ وولايتِهِ، ومنه أنِ اجْتَبى هذه الأمَّة وفضَّلها على سائر الأمم واختارَ لها أفضلَ الأديان وخيرَها. {ويَهْدي إليه من ينيبُ}: هذا السبب الذي من العبد يتوصَّل به إلى هداية الله تعالى، وهو إنابتُه لربِّه، وانجذابُ دواعي قلبِهِ إليه، وكونُه قاصداً وجهه؛ فحسنُ مقصدِ العبد مع اجتهادِهِ في طلب الهدايةِ من أسباب التيسير لها؛ كما قال تعالى: {يَهْدي بهِ الله من اتَّبَعَ رضوانَه سُبُلَ السلام}. وفي هذه الآية أنَّ الله {يَهْدي إليه مَن يُنيبُ}، مع قولِهِ: {واتَّبِعْ سبيلَ من أنابَ إليَّ}، مع العلم بأحوال الصحابة رضي الله عنهم وشدَّة إنابتهم: دليلٌ على أنَّ قولهم حجَّة، خصوصاً الخلفاء الراشدين رضي الله عنهم أجمعين.
- AyatMeaning
- [13] یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو سرفراز فرمایا۔ اس نے ان کے لیے دین اسلام مشروع کیا، جو تمام ادیان میں سب سے افضل اور سب سے پاک دین ہے۔ دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے چنے ہوئے بندوں کے لیے مشروع کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے چنے ہوئے بندوں میں سے بھی خاص بندوں کے لیے اس دین کو مشروع کیا، جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا، جو ہر لحاظ سے تمام مخلوق میں سب سے کامل اور جن کا درجہ سب سے بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین ان کے لیے مشروع فرمایا، ضروری ہے کہ وہ مقدس ہستیوں کے مناسب حال اور ان کے کمال کے موافق ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے دین کو قائم کرنے کے سبب سے کمال سے سرفراز فرمایا اور اپنے لیے چن لیا۔ اگر دین اسلام نہ ہوتا تو تمام مخلوق میں کوئی بھی بلندی پر نہ پہنچ سکتا۔ اسلام سعادت کی روح اور کمال کی بنیاد ہے۔ اسلام وہی ہے جو اس کتاب کریم میں دیا گیا ہے اور جس کی طرف یہ کتاب دعوت دیتی ہے، یعنی توحید، اعمال صالحہ، مکارم اخلاق اور آداب وغیرہ۔ ﴿اَنْ اَ٘قِیْمُوا الدِّیْنَ ﴾ یعنی اس نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم دین کے تمام اصول و فروع کو قائم کرو۔ ان کو خود اپنی ذات پر نافذ کرو، پھر دوسروں پر نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرو۔ نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو، گناہ اور زیادتی پر تعاون نہ کرو۔ ﴿وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ ﴾ ’’اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘ تاکہ تم دین کے اصول و فروع پر متفق رہو۔ اس امر پر پوری توجہ رکھو کہ مسائل تم میں تفرقہ ڈال کر کہیں تمھیں گروہ در گروہ تقسیم نہ کر دیں اور یوں تم ایک دوسرے کے دشمن نہ بن جاؤ باوجودیکہ تمھارا دین ایک ہے۔ دین پر اجتماع اور عدم تفرقہ میں وہ اجتماعات عامہ بھی شامل ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ، مثلاً: حج، عیدین، جمعہ، نماز پنجگانہ اور جہاد وغیرہ ۔ یہ ایسی عبادات ہیں جو اجتماعات اور عدم تفرق کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ ﴿كَبُرَ عَلَى الْ٘مُشْرِكِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِ ﴾ یعنی جب آپ ان کو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بات ان پر بے انتہا شاق گزرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُ٘لُ٘وْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ ﴾ (الزمر39؍45) ’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو یکایک خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ مشرکین کہتے تھے: ﴿اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖ ۚ اِنَّ هٰؔذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ ﴾ (ص:38؍5) ’’کیا اس نے ان سارے معبودوں کی بجائے ایک ہی معبود بنا دیا، یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔‘‘ ﴿اَللّٰهُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ میں برگزیدہ بنالیتا ہے۔‘‘ اللہ اپنی مخلوق میں ان لوگوں کو اپنے لیے منتخب کرتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی رسالت، اس کی ولایت اور اس کی نعمت کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ اس طرح اس نے اس امت کا انتخاب کیا اور اسے تمام امتوں پر فضیلت سے نوازا اور اس کے لیے بہترین دین چنا۔ ﴿وَیَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ ﴾ ’’اور جو اس کی طرف رجوع کرے وہ اسے اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔‘‘ بندے کی طرف سے یہ سبب جس کے ذریعے سے وہ ہدایت الٰہی کی منزل تک پہنچتا ہے، اپنے رب کی طرف انابت، دلی محرکات کا اس کی طرف میلان اور اپنے رب کی رضا کو اپنا مقصد بنانا یہ تمام اسباب، طلب ہدایت کے حصول کو آسان بناتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّ٘بَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰ٘مِ ﴾ (المائدہ:5؍16) ’’اس کتاب کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا چاہتے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿وَیَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ ﴾ اور فرمایا: ﴿وَّاتَّ٘بِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ﴾ (لقمن:31؍15) ’’اور چلو اس شخص کے طریق پر جو ہماری طرف رجوع کیے ہوئے ہو۔‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں صحابہ کرام کے احوال معلوم ہیں اور ان کی شدت انابت بھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام خاص طور پر خلفائے راشدین کا قول حجت ہے۔ (y)
- Vocabulary
- AyatSummary
- [13]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType