Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 168
- SegmentHeader
- AyatText
- {28} هذا نهي من الله وتحذير للمؤمنين أن يتخذوا الكافرين أولياء من دون المؤمنين، فإن المؤمنين بعضهم أولياء بعض، والله وليهم {ومن يفعل ذلك}؛ التولي، {فليس من الله في شيء}؛ أي: فهو بريء من الله، والله بريء منه كقوله تعالى: {ومن يتولهم منكم فإنه منهم}؛ وقوله: {إلا أن تتقوا منهم تقاة}؛ أي: إلا أن تخافوا على أنفسكم في إبداء العداوة للكافرين فلكم في هذه الحال الرخصة في المسالمة والمهادنة لا في التولي الذي هو محبة القلب الذي تتبعه النصرة، {ويحذركم الله نفسه}؛ أي: فخافوه واخشوه وقدموا خشيته على خشية الناس فإنه هو الذي يتولى شؤون العباد، وقد أخذ بنواصيهم وإليه يرجعون وسيصيرون إليه، فيجازي من قدم خوفه ورجاءه على غيره بالثواب الجزيل، ويعاقب الكافرين ومن تولاهم بالعذاب الوبيل.
- AyatMeaning
- [28] اللہ تعالیٰ مومنوں کو کافروں سے دوستی لگانے سے منع فرماتا ہے کہ ان سے محبت نہ رکھیں ، ان کی مدد نہ کریں، مسلمانوں کے کسی کام میں ان سے مدد نہ لیں اور جو کوئی ایسی حرکت کرے اسے تنبیہ فرماتا ہے کہ ﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَ٘لَ٘یْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ ﴾ ’’جو ایسا کرے گا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ یعنی وہ اللہ سے کٹ گیا ہے، اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ کافروں سے دوستی اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔ ایمان تو اللہ سے محبت اور اس کے دوستوں یعنی مومنوں سے تعاون کرکے اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے کاحکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ﴾ (التوبۃ:9؍71)’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی (مددگار، محبت رکھنے والے) ہیں۔‘‘ جو شخص مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں سے دوستی لگاتا ہے جو اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے اولیاء کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، ایسا شخص مومنوں کی جماعت سے نکل جاتا ہے اور کافروں کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے: ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّؔنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ﴾ (المائدۃ:5؍51)’’تم میں سے جو کوئی ان سے محبت رکھے گا، وہ انھی میں سے ہوگا‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں سے ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے، ان سے دوستی لگانے سے ان کی طرف میلان رکھنے سے بچنا ضروری ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی کافر کو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ عام مسلمانوں کے فائدے کے کسی کام میں ان سے مدد نہیں لی جاسکتی۔ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً ﴾ ’’مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح کا بچاؤ مقصود ہو۔‘‘ یعنی اگر تمھیں ان سے جان کا خطرہ ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے زبان سے تقیہ کرسکتے ہو، اور ظاہری طورپر ایسا کام کرسکتے ہو جس سے تقیہ ہوجاتا ہے۔( تحقیق شدہ نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ aنے ’’المنہاج‘‘ میں فرمایا ہے: اللہ کا یہ فرمان: ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً﴾ اس کے بارے میں حضرت مجاہد aنے فرمایا ہے: (لامصانعۃ) ’’ان کا ساتھ نہ دو۔‘‘ تقیہ یہ نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ بولوں اور زبان سے وہ بات کہوں جو میرے دل میں نہیں، یہ تو منافقت ہے۔ بلکہ مجھے چاہیے کہ نبیe کے ارشاد کے مطابق جو کچھ کرسکوں کروں۔ ارشاد نبویe ہے: ’’تم میں سے جو کچھ کوئی برائی دیکھے،تو اسے ہاتھ سے تبدیل (اور ختم) کردے اور اگر یہ طاقت نہ ہو تو زبان سے (منع کرے)۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (نفرت رکھے)۔‘‘ لہٰذا مومن جب کافروں اور بدکاروں میں گھر جائے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اس پر ہاتھ سے جہاد کرنا فرض نہیں۔ اگر زبان سے منع کرسکے تو ضرور کرے ورنہ دل سے نفرت رکھے۔ ان تمام درجات میں وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ زبان سے وہ بات نہیں کہے گا، جو اس کے دل میں نہیں۔ وہ یا تو اپنا دین ظاہر کرے گا، یا چھپائے گا۔ لیکن کسی بھی حال میں ان کے مذہب کی تائید نہیں کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ وہ مومن آل فرعون کا، یازوجہ فرعون کا سا طرز عمل اختیار کرسکتا ہے۔ وہ مومن ان کے دین کی تائید نہیں کرتا تھا، نہ جھوٹ بولتا تھا، نہ زبان سے وہ بات کہتا تھا جو اس کے دل میں نہیں، بلکہ اپنے دین کو چھپائے ہوئے تھا۔ دین کو چھپانا اور چیز ہے اور باطل دین کا اظہار بالکل دوسری چیز ہے۔ اللہ نے اس چیز کی بالکل اجازت نہیں دی۔ صرف اسے اجازت دی ہے جسے کلمۂ کفر کہنے پر زبردستی مجبور کردیا جائے…‘‘۔ الخ) ﴿وَیُحَذِّرُؔكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ تمھیں خود اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔‘‘ لہٰذا اس کی نافرمانی کرکے اس کی ناراضی مول نہ لو۔ ورنہ وہ تمھیں اس کی سزا دے گا۔ ﴿ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [28]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF