Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
40
SuraName
تفسیر سورۂ غافر (مؤمن)
SegmentID
1355
SegmentHeader
AyatText
{28} ومن جملة الأسباب هذا الرجل المؤمن الذي من آل فرعون من بيت المملكةِ، لا بدَّ أن يكونَ له كلمةٌ مسموعةٌ، وخصوصاً إذا كان يظهِرُ موافقتَهم ويكتُمُ إيمانه؛ فإنهم يراعونَه في الغالب ما لا يراعونَه لو خالفهم في الظاهر؛ كما منع الله رسولَه محمداً - صلى الله عليه وسلم - بعمه أبي طالب من قريش؛ حيث كان أبو طالب كبيراً عندهم موافقاً لهم على دينهم، ولو كان مسلماً؛ لم يحصلْ منه ذلك المنع، فقال ذلك الرجل المؤمن الموفَّق العاقل الحازم مقبِّحاً فعل قومه وشناعة ما عزموا عليه: {أتَقْتُلونَ رجلاً أن يقولَ ربِّيَ اللهُ}؛ أي: كيف تستحلُّون قتلَه وهذا ذنبُه وجرمُه أَنَّه يقولَ ربِّيَ الله، ولم يكن أيضاً قولاً مجرَّداً عن البيناتِ، ولهذا قال: {وقد جاءكم بالبيِّناتِ من ربِّكم}: لأنَّ بيِّنته اشتهرت عندهم اشتهاراً علم به الصغيرُ والكبيرُ؛ أي: فهذا لا يوجب قتله؛ فهلاَّ أبطلتم قبل ذلك ما جاء به من الحقِّ، وقابلتم البرهان ببرهان يردُّه ثم بعد ذلك نظرتُم هل يحلُّ قتلُه إذا ظهرتم عليه بالحجة أم لا؟! فأما وقد ظهرت حجَّته واستعلى برهانه؛ فبينكم وبين حِلِّ قتله مفاوزُ تنقطع بها أعناق المطيِّ. ثم قال لهم مقالةً عقليةً تقنِعُ كلَّ عاقل بأيِّ حالة قُدِّرت، فقال: {وإنْ يكُ كاذباً فعليه كذِبُه وإن يكُ صادقاً يصِبْكُم بعض الذي يعدكم}: أي: موسى بين أمرين إما كاذب في دعواه أو صادق فيها، فإن كان كاذباً فكذبه عليه وضرره مختصٌّ به، وليس عليكم في ذلك ضررٌ؛ حيث امتنعتُم من إجابته وتصديقه، وإن كان صادقاً، وقد جاءكم بالبينات وأخبركم أنَّكم إنْ لم تجيبوه عذَّبَكم الله عذاباً في الدُّنيا وعذاباً في الآخرة؛ فإنَّه لا بدَّ أن يصيبَكم بعضُ الذي يعِدُكم، وهو عذاب الدنيا. وهذا من حسن عقلِهِ ولطف دفعِهِ عن موسى؛ حيث أتى بهذا الجواب الذي لا تشويش فيه عليهم، وجعلَ الأمر دائراً بين تلك الحالتين، وعلى كلِّ تقدير؛ فقتله سفهٌ وجهلٌ منكم. ثم انتقل ـ رضي الله عنه وأرضاه وغفر له ورحمه ـ إلى أمرٍ أعلى من ذلك وبيان قرب موسى من الحقِّ فقال: {إن الله لا يهدي من هو مسرف}؛ أي؛ متجاوز الحد بترك الحق والإقبال على الباطل، {كذابٌ}: بنسبته ما أسرف فيه إلى الله؛ فهذا لا يهديه الله إلى طريق الصواب؛ لا في مدلوله، ولا في دليله، ولا يوفَّق للصراط المستقيم؛ أي: وقد رأيتُم ما دعا موسى إليه من الحقِّ وما هداه الله إلى بيانِهِ من البراهين العقليَّة والخوارق السماويَّة؛ فالذي اهتدى هذا الهدى لا يمكنُ أن يكون مسرفاً ولا كاذباً. وهذا دليلٌ على كمال علمِهِ وعقلِهِ ومعرفتِهِ بربِّه.
AyatMeaning
[29] پھر اس صاحب ایمان نے اپنی قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے ان کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور انھیں ظاہری اقتدار کے دھوکے میں مبتلا ہونے سے روکا، اس نے کہا: ﴿یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ﴾ ’’اے میری قوم! آج تمھاری بادشاہت ہے۔‘‘ یعنی دنیا کے اندر ﴿ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’تم ہی اپنی سرزمین میں غالب ہو‘‘ تم اپنی رعیت پر غالب ہو اور ان پر جو حکم چاہتے ہو نافذ کرتے ہو۔ فرض کیا تمھیں یہ اقتدار پوری طرح حاصل ہو جاتا ہے، حالانکہ تمھارا یہ اقتدار مکمل نہ ہو گا ﴿فَ٘مَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَ٘اْسِ اللّٰهِ ﴾ ’’تو ہمیں اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا۔‘‘ ﴿اِنْ جَآءَنَا ﴾ ’’اگر وہ (عذاب) ہمارے پاس آجائے۔‘‘ یہ اس مومن شخص کی طرف سے دعوت کا نہایت حسین اسلوب ہے کیونکہ اس نے معاملے کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک رکھا۔ اس کا قول تھا ﴿فَ٘مَنْ یَّنْصُرُنَا ﴾ اور ﴿اِنْ جَآءَنَا ﴾ تاکہ ان کو باور کرا سکے کہ وہ ان کا اسی طرح خیرخواہ ہے جس طرح وہ خود اپنی ذات کا خیرخواہ ہے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ﴿قَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ اس بارے میں فرعون نے اس مرد مومن کی مخالفت اور اپنی قوم کو حضرت موسیٰu کی اتباع سے بچانے کے لیے ان کو فریب میں مبتلا کرتے ہوئے کہا: ﴿مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَمَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ ﴾ ’’میں تمھیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے اور تمھیں وہی راہ بتاتا ہوں جس میں بھلائی ہے۔‘‘ وہ اپنے قول: ﴿مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى ﴾ ’’میں تمھیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے‘‘ میں بالکل سچا ہےمگر اسے کیا بات سوجھی ہے؟ اسے یہ بات سوجھی ہے کہ وہ اپنی قوم کو ہلکا (بے وقوف) سمجھے اور وہ اس کی پیروی کریں تاکہ اس کی ریاست کو قائم رہے۔ وہ جانتا تھا کہ حق اس کے ساتھ نہیں ہے بلکہ حق حضرت موسیٰu کے ساتھ ہے، اسے اس بات کا یقین تھا بایں ہمہ اس نے حق کا انکار کر دیا۔ البتہ اس نے اپنے اس قول میں جھوٹ بولا: ﴿وَمَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ ﴾ ’’میں تو تمھیں صرف ہدایت کی راہ دکھاتا ہوں۔‘‘ یہ حق کو بدل ڈالنا ہے۔ اگر فرعون نے اپنی قوم کو صرف اتنا ساحکم دیا ہوتا کہ وہ اس کے کفر اور گمراہی میں اس کی اتباع کریں تو یہ برائی کم تر ہوتی، مگر اس نے تو اپنی قوم کو اپنی اتباع کا حکم دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اسے یہ بھی زعم تھا کہ اس کی اتباع حق کی اتباع ہے اور حق کی اتباع کو گمراہی خیال کرتا تھا۔
Vocabulary
AyatSummary
[29]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List