Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
40
SuraName
تفسیر سورۂ غافر (مؤمن)
SegmentID
1352
SegmentHeader
AyatText
{15} ثم ذَكَرَ من جلاله وكماله ما يقتضي إخلاص العبادة له، فقال: {رفيع الدرجات ذو العرش}؛ أي: العلي الأعلى، الذي استوى على العرش واختصَّ به وارتفعتْ درجاتُه ارتفاعاً بايَنَ به مخلوقاتِهِ وارتفع به قدرُهُ وجلَّت أوصافُهُ وتعالت ذاتُه أن يتقرَّب إليه إلا بالعمل الزكي الطاهر المطهَّر، وهو الإخلاص الذي يرفع درجات أصحابه ويقرِّبهم إليه ويجعلهم فوق خلقِهِ. ثم ذكر نعمته على عباده بالرسالة والوحي، فقال: {يُلقي الرُّوحَ}؛ أي: الوحي الذي للأرواح والقلوب بمنزلة الأرواح للأجساد؛ فكما أنَّ الجسد بدون الروح لا يحيا ولا يعيش؛ فالروح والقلب بدون روح الوحي لا يَصْلُحُ ولا يفلحُ؛ فهو تعالى {يُلْقي الرُّوحَ من أمرِهِ}: الذي فيه نفع العباد ومصلحتهم {على مَن يشاءُ من عبادِهِ}: وهم الرسل الذين فضَّلهم، واختصَّهم لوحيه ودعوة عباده. والفائدة في إرسال الرسل هو تحصيل سعادة العبادِ في دينهم ودنياهم وآخرتهم، وإزالة الشقاوة عنهم في دينهم ودنياهم وآخرتهم، ولهذا قال: {لِيُنذِرَ}: من ألقى الله إليه الوحي {يَوْمَ التَّلاقِ}؛ أي: يخوِّف العباد بذلك ويحثهم على الاستعداد له بالأسباب المنجية مما يكون فيه؛ وسمَّاه يوم التلاق لأنَّه يلتقي فيه الخالق والمخلوق، والمخلوقون بعضُهم مع بعض، والعاملون وأعمالُهم وجزاؤهم.
AyatMeaning
[15] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و کمال کا ذکر فرمایا جو عبادت میں اخلاص کا تقاضا کرتا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿رَفِیْعُ الدَّرَجٰؔتِ ذُو الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’وہ درجاتِ عالی کا مالک اور صاحب عرش ہے۔‘‘ یعنی وہ بلند اور اعلیٰ ہے جو عرش پر مستوی ہے، عرش اس کے لیے مختص ہے، اس کے درجات بہت بلند ہیں وہ ان کی وجہ سے مخلوقات سے علیحدہ ہے اور ان کے ساتھ اس کامرتبہ بلند ہے۔ اس کے اوصاف جلیل القدر اور اس کی ذات اس سے بلندتر ہے کہ اس کا قرب حاصل کیا جائے سوائے پاک اور طاہر و مطہر عمل کے ذریعے سے اور وہ ہے اخلاص جو مخلص مومنین کے درجات کو بلند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور تمام مخلوق پر فوقیت عطا کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رسالت اور وحی کی نعمت کا ذکر کرتا ہے، فرمایا: ﴿یُلْ٘قِی الرُّوْحَ ﴾ ’’وہ نازل کرتا ہے روح۔‘‘ یعنی وحی، جو قلب و روح کے لیے وہی حیثیت رکھتی ہے جو اجساد کے لیے ارواح کی ہے۔ جیسے روح کے بغیر بدن زندہ ہوتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے، اسی طرح روح اور قلب، روحِ وحی کے بغیر درست رہ سکتے ہیں نہ فلاح سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ ﴿یُلْ٘قِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ﴾ ’’اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے۔‘‘ جس میں بندوں کی منفعت اور مصلحت ہے ﴿عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ ’’اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے۔‘‘ اس سے اللہ تعالیٰ کے رسول مراد ہیں جن کو اس نے فضیلت بخشی اور انھیں اپنی وحی اور بندوں کو دعوت دینے کے لیے مختص فرمایا۔ انبیاء و مرسلین مبعوث کرنے کا فائدہ بندوں کے لیے، ان کے دین، دنیا اور آخرت میں سعادت کا حصول اور ان کے دین، دنیا اور آخرت میں بدبختی کو دور کرنا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿لِیُنْذِرَ ﴾ تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کی طرف وحی بھیجی گئی ہے۔ ﴿یَوْمَ التَّلَاقِ﴾ ’’ملاقات کے دن سے‘‘ یعنی وہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ملاقات کے دن سے ڈرائے اور انھیں ان اسباب کو تیار کرنے کے لیے آمادہ کرے جو ان کو اس صورت حال سے نجات دیتے ہیں جس میں وہ گھرے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن کو (یَوْمَ التَّلَاقْ) کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس دن خالق اور مخلوق کی ملاقات ہو گی، مخلوق ایک دوسرے سے ملاقات کرے گی اور عمل کرنے والے اپنے اعمال اور ان کی جزا کا سامنا کریں گے۔
Vocabulary
AyatSummary
[15]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List