Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 40
- SuraName
- تفسیر سورۂ غافر (مؤمن)
- SegmentID
- 1350
- SegmentHeader
- AyatText
- {9} {وقِهِمُ السيئاتِ}؛ أي: الأعمال السيئة وجزاءها؛ لأنها تسوء صاحبها، {ومَن تَقِ السيئاتِ يومئذ}؛ أي: يوم القيامةِ {فقد رحمتَه}: لأنَّ رحمتك لم تزل مستمرةً على العباد، لا يمنعها إلاَّ ذنوب العباد وسيئاتُهم؛ فمن وقيته السيئات؛ وفَّقْته للحسنات وجزائها الحسن. {وذلك}؛ أي: زوال المحذور بوقاية السيئات وحصول المحبوب بحصول الرحمة؛ {هو الفوزُ العظيم}: الذي لا فوز مثله، ولا يتنافسُ المتنافسون بأحسن منه. وقد تضمَّن هذا الدعاء من الملائكة: كمال معرفتهم بربِّهم، والتوسُّل إلى الله بأسمائه الحسنى التي يحبُّ من عباده التوسُّل بها إليه، والدُّعاء بما يناسب ما دعوا الله فيه. فلما كان دعاؤهم بحصول الرحمة وإزالة أثر ما اقتضته النفوس البشرية التي علم الله نَقْصَها واقتضاءها لما اقتضته من المعاصي ونحو ذلك من المبادئ والأسباب التي قد أحاط الله بها علماً؛ توسَّلوا بالرحيم العليم. وتضمَّن كمالَ أدبهم مع الله تعالى بإقرارهم بربوبيَّته لهم الربوبيَّة العامَّة والخاصَّة، وأنه ليس لهم من الأمر شيءٌ، وإنَّما دعاؤهم لربِّهم صدر من فقير بالذات من جميع الوجوه لا يُدلي على ربِّه بحالة من الأحوال، إن هو إلاَّ فضلُ الله وكرمه وإحسانه. وتضمَّن موافقتهم لربِّهم تمام الموافقة؛ بمحبَّة ما يحبُّه من الأعمال، التي هي العبادات التي قاموا بها واجتهدوا اجتهاد المحبين، ومن العمال الذين هم المؤمنون، الذين يحبُّهم الله تعالى من بين خلقه؛ فسائر الخلق المكلفين يبغضهم الله إلا المؤمنين منهم؛ فمن محبة الملائكة لهم دعوا الله واجتهدوا في صلاح أحوالهم؛ لأن الدعاء للشخص من أدلِّ الدلائل على محبته؛ لأنَّه لا يدعو إلا لمن يحبه. وتضمن ما شرحه الله، وفصَّله من دعائهم ـ بعد قوله: {يستغفرون للذين آمنوا} ـ التنبيهَ اللطيفَ على كيفيَّة تدبُّر كتابه، وأن لا يكون المتدبِّر مقتصراً على مجرد معنى اللفظ بمفرده، بل ينبغي له أن يتدبَّر معنى اللفظ؛ فإذا فهمه فهماً صحيحاً على وجهه؛ نظر بعقله إلى ذلك الأمر والطرق الموصلة إليه، وما لا يتمُّ إلا به، وما يتوقَّف عليه؛ وجزم بأنَّ الله أراده؛ كما يجزم أنه أراد المعنى الخاصَّ الدالَّ عليه اللفظ، والذي يوجب الجزم له، بأنَّ الله أراده أمران: أحدهما: معرفته وجزمه بأنه من توابع المعنى والمتوقّف عليه. الثاني: علمه بأن الله بكل شيء عليم، وأن الله أمر عباده بالتدبُّر والتفكُّر في كتابه. وقد علم تعالى ما يلزم من تلك المعاني، وهو المخبر بأن كتابه هدىً ونورٌ وتبيانٌ لكل شيء، وأنَّه أفصح الكلام وأجلُّه إيضاحاً؛ فبذلك يحصلُ للعبد من العلم العظيم والخير الكثير بحسب ما وفَّقه الله له. وقد كان في تفسيرنا هذا كثيرٌ من هذا منَّ به الله علينا، وقد يخفى في بعض الآيات مأخذه على غير المتأمِّل صحيح الفكرة، ونسأله تعالى أن يفتح علينا من خزائن رحمته ما يكون سبباً لصلاح أحوالنا وأحوال المسلمين، فليس لنا إلا التعلُّق بكرمه والتوسُّل بإحسانه الذي لا نزال نتقلَّب فيه في كل الآنات وفي جميع اللحظات، ونسأله من فضله أن يقينا شرَّ أنفسنا المانع والمعوق لوصول رحمته؛ إنَّه الكريم الوهاب، الذي تفضل بالأسباب ومسبباتها. وتضمَّن ذلك أن المقارن من زوج وولد وصاحب يَسْعَدُ بقرينه ويكون اتِّصاله به سبباً لخير يحصل له خارج عن عمله، وسبب عمله؛ كما كانت الملائكة تدعو للمؤمنين ولمن صَلَحَ من آبائهم وأزواجهم وذرياتهم، وقد يقال: إنه لا بدَّ من وجود صلاحهم؛ لقوله: {ومَن صَلَحَ}؛ فحينئذ يكون ذلك من نتيجة عملهم. والله أعلم.
- AyatMeaning
- [9] ﴿وَقِهِمُ السَّیِّاٰتِ ﴾ ’’اور انھیں برائیوں سے بچالے‘‘ یعنی تو ان کو برے اعمال اور ان کی جزا سے دور رکھ کیونکہ یہ انسان کو بہت تکلیف دیتے ہیں۔ ﴿وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’اور جس کو تو اس دن عذابوں سے بچالے گا۔‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿فَقَدْ رَحِمْتَهٗ﴾ ’’تو بے شک تو نے اس پر رحمت کی۔‘‘ کیونکہ تیری رحمت تیرے بندوں پر ہمیشہ سایہ کناں رہی ہے، بندوں کے گناہ اور ان کی برائیاں ہی انھیں اس رحمت سے محروم کرتے ہیں۔ جس کو تو نے برائیوں سے بچا لیا اسے تو نے نیکیوں کی توفیق اور ان کی جزائے حسن سے بہرہ مند کیا۔ ﴿وَذٰلِكَ ﴾ ’’اور یہ‘‘یعنی منہیات کا دور ہونا، برائیوں سے بچانا اور محبوب و مرغوب کا حاصل ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے سبب سے ہے۔ ﴿هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں اور مقابلہ کرنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں ہے۔ فرشتوں کی یہ دعا اس حقیقت کو متضمن ہے کہ فرشتے اپنے رب کی کامل معرفت سے سرفراز ہیں وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کو وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کی طرف سے اپنے اسماء کو وسیلہ بنانے اور جو دعا مانگی جا رہی ہو اس کی مناسبت سے اسمائے الٰہی کو وسیلہ بنانے کو پسند کرتا ہے۔ بندوں کی دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول اور نفوس بشری کے تقاضوں کے اثرات کے ازالے کے لیے ہوتی ہے، جن کے نقص اور ان کے تقاضوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ، لہٰذا جب وہ ان معاصی اور اس کے مبادی و اسباب کا تقاضا کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے۔ تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات ’’رَحِیْم‘‘ اور ’’عَلِیْم‘‘ کو وسیلۂ دعا بنایا۔اس کی ربوبیت عامہ اور ربوبیت خاصہ کا اقرار ان کا اللہ تعالیٰ کے متعلق کمال ادب کو متضمن ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں ۔یہ تو ان کی اپنے رب کے سامنے دعا ہے جو ہر لحاظ سے ایک محتاج ہستی سے صادر ہوتی ہے۔ جو کسی بھی حال کو اپنا وسیلہ نہیں بنا سکتی۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم و احسان ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ان کی موافقت، ان اعمال یعنی عبادات سے محبت کو متضمن ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے، جسے وہ قائم کرتے ہیں اور محبت کرنے والوں کی جدوجہد کی طرح جدوجہد کرتے ہیں، وہ ہیں اہل ایمان، اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق میں سے انھی سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مکلف مخلوق کو ناپسند کرتا ہے مگر ان میں سے اہل ایمان کو پسند کرتا ہے۔ فرشتوں کی اہل ایمان کے ساتھ محبت ہے کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، ان کے احوال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ کسی شخص کے لیے دعا کرنا، اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ دعا کرنے والا اس شخص سے محبت کرتا ہے کیونکہ انسان صرف اسی کے لیے دعا مانگتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ارشاد: ﴿وَیَسْتَغْفِرُوْنَ۠ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ کے بعد کا فرشتوں کی دعا کی تفصیل اور شرح بیان کرنا، کتاب اللہ میں تدبیر کی کیفیت کی طرف لطیف اشارے کو متضمن ہے۔ نیز یہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ تدبر کرنے والا صرف مفرد لفظ کے معنی پر اقتصار نہ کرے۔ بلکہ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ لفظ کے معنی پر خوب تدبر اور غوروفکر کرے۔ جب اچھی طرح معنی کا فہم حاصل کر لے تو اپنی عقل سے اس معاملے میں غور کرے، ان طریقوں پر غور کرے جو اس منزل تک پہنچاتے ہیں اور جن کے بغیر یہ ناتمام ہے اور جن پر تمام دارومدار ہے۔ اس کو یقین قطعی ہو جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، جیسا کہ اسے یقین ہے کہ وہ معنیٔ خاص اللہ تعالیٰ کی مراد ہے جس پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے۔ وہ چیز جو اس کے لیے اس یقین کی موجب ہے کہ یہی معنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، دو امور ہیں: ۱۔ اس کی معرفت اور اس بات کا یقین کہ یہ معنی کے توابع میں سے ہے اورمراد الٰہی اسی پر موقوف ہے۔ ۲۔ اس حقیقت کا علم رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی کتاب میں تدبروتفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان معانی سے کیا لازم آتا ہے۔ اسی نے خبردی ہے کہ اس کی کتاب سراسر ہدایت، نور اور ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے، یہ فصیح ترین اور ایضاح کے اعتبار سے جلیل ترین کلام ہے۔ اس سے بندۂ مومن توفیق الٰہی کے مطابق علم عظیم اور خیرکثیر سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ ہماری اس تفسیر میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے۔ کبھی کبھی بعض آیات میں، صحیح الفکر مگر غوروتدبر سے محروم شخص پر اس کا ماخذ مخفی رہتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی رحمت کے خزانے کھول دے جو ہمارے احوال اور تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح کا سبب بنیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم اس کی نگاہ کرم کے منتظر ہیں، اس کے احسان کووسیلہ بناتے ہیں، جس سے ہم ہر آن اور ہر لحظہ بہرہ مند رہتے ہیں۔ ہم اس سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں، یقینا ہمارے نفس کی برائی ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم اور عطا کرنے والا ہے جس نے ہمیں اسباب اور ان کے مسببات عطا کیے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو متضمن ہے کہ مومن کے ساتھ رہنے والے اشخاص، مثلاً: بیوی، اولاد اور دوست بھی اس کی صحبت کے باعث سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں، مومن کی صحبت ان کے لیے ایسی بھلائی کے حصول کا سبب بنتی ہے جو اس کے عمل اور اسباب عمل سے خارج ہے، جیسا کہ فرشتے اہل ایمان اور ان کے نیک والدین، ان کی نیک بیویوں اور ان کی نیک اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل ایمان کے ماں باپ، بیویوں اور اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَنْ صَلَ٘حَ ﴾ کے مطابق ’’صلاحیت‘‘ کا وجود لازم ہے تب اس صورت میں، ان کے لیے فرشتوں کی یہ دعا، ان کے عمل ہی کا نتیجہ ہے۔ واللہ أعلم۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [9]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF