Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 12
- SegmentHeader
- AyatText
- {25} لمَّا ذكر جزاء الكافرين ذكر جزاء المؤمنين أهل الأعمال الصالحات كما هي طريقته تعالى في كتابه يجمع بين الترغيب والترهيب؛ ليكون العبد راغباً راهباً خائفاً راجياً فقال: {وبشّر}؛ أي: أيها الرسول ، ومن قام مقامك {الذين آمنوا}؛ بقلوبهم {وعملوا الصالحات}؛ بجوارحهم؛ فصدقوا إيمانهم بأعمالهم الصالحة، ووُصِفت أعمال الخير بالصالحات؛ لأن بها تصلح أحوال العبد، وأمور دينه ودنياه، وحياته الدنيوية والأخروية، ويزول بها عنه فساد الأحوال؛ فيكون بذلك من الصالحين الذين يصلحون لمجاورة الرحمن في جنته فبشرهم {أن لهم جنات}؛ أي: بساتين جامعة للأشجار العجيبة والثمار الأنيقة والظل المديد والأغصان والأفنان، وبذلك صارت جنة يجتن بها داخلها وينعم فيها ساكنها {تجري من تحتها الأنهار}؛ أي: أنهار الماء واللبن والعسل والخمر يفجرونها كيف شاؤوا، ويصرفونها أين أرادوا، وتُسقَى منها تلك الأشجار؛ فتنبت أصناف الثمار {كلما رزقوا منها من ثمرة رزقاً قالوا هذا الذي رزقنا من قبل}؛ أي: هذا من جنسه وعلى وصفه، كلها متشابهة في الحسن واللذة ليس فيها ثمرة خاسَّةٌ، وليس لهم وقت خالٍ من اللَّذة؛ فهم دائماً متلذذون بأُكُلِها، وقوله: {وأتوا به متشابهاً}؛ قيل: متشابهاً في الاسم مختلفاً في الطعم ، وقيل: متشابهاً في اللون مختلف في الاسم، وقيل: يشبه بعضه بعضاً في الحسن واللذة والفكاهة، ولعل هذا أحسن. ثم لما ذكر مسكنهم، وأقواتهم من الطعام والشراب، وفواكههم ذكر أزواجهم؛ فوصفهنَّ بأكمل وصف وأوجزه وأوضحه؛ فقال: {ولهُم فيها أزواجٌ مُطهرةٌ}؛ فلم يقل مطهرةٌ من العيب الفلاني؛ ليشمل جميع أنواع التطهير، فهنَّ مطهرات الأخلاق، مطهرات الخلق، مطهرات اللسان، مطهرات الأبصار، فأخلاقهن أنهن عُرُبٌ متحببات إلى أزواجهن بالخلق الحسن وحسن التبعل والأدب القولي والفعلي، ومطهرٌ خَلْقُهن من الحيض والنفاس والمني والبول والغائط والمخاط والبصاق والرائحة الكريهة، ومُطَهرات الخَلْق أيضاً بكمال الجمال؛ فليس فيهن عيب ولا دمامة خَلْق، بل هن خيرات حسان، مطهرات اللسان والطرف، قاصرات طرفهن على أزواجهن، وقاصرات ألسنتهن عن كل كلام قبيح. ففي هذه الآية الكريمة ذكر المبشِّر والمُبشَّر والمُبَشَّر به والسبب الموصل لهذه البشارة؛ فالمبشر هو: الرسول - صلى الله عليه وسلم - ومن قام مقامه من أمته، والمبشَّر هم: المؤمنون العاملون الصالحات، والمبشر به هي: الجنات الموصوفات بتلك الصفات، والسبب الموصل لذلك، هو: الإيمان والعمل الصالح، فلا سبيل إلى الوصول إلى هذه البشارة إلا بهما، وهذا أعظم بشارة حاصلة على يد أفضل الخلق بأفضل الأسباب، وفيه استحباب بشارة المؤمنين وتنشيطهم على الأعمال بذكر جزائها وثمراتها؛ فإنها بذلك تخف وتسهل، وأعظم بشرى حاصلة للإنسان توفيقه للإيمان والعمل الصالح، فذلك أول البشارة وأصلها، ومن بعده البشرى عند الموت، ومن بعده الوصول إلى هذا النعيم المقيم. نسأل الله من فضله.
- AyatMeaning
- [25] جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی جزا کا ذکر کیا تو اعمال صالحہ سے آراستہ اہل ایمان کی جزا بھی بیان فرما دی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے کہ وہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا بیان کرتا ہے تاکہ بندۂ مومن اللہ کی رحمت میں رغبت بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ اس کے دل میں عذاب کا خوف ہو تو رحمت و مغفرت کی امید سے بھی سرشار ہو۔ ﴿ وَبَشِّرْ﴾ یعنی اے رسول! آپ اور آپ کا قائم مقام خوشخبری دے دے۔ ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے ﴿وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ﴾ اور انھوں نے اپنے جوارح سے نیک کام سر انجام دیے۔ پس انھوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے اعمال خیر کو ’’الصالحات‘‘ سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ ان کے ذریعے سے بندے کے احوال، اس کے دینی اور دنیاوی امور اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی احوال کا فساد زائل ہوتا ہے پس اس کی وجہ سے اس کا شمار صالحین میں ہو جاتا ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ کی مجاورت اور اس کے قرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ پس ان کو خوشخبری سنا دیجیے ﴿اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ﴾ کہ ان کے لیے جنت کے باغات ہیں جن میں عجیب اقسام کے درخت، نفیس انواع کے پھل، گہرے سائے اور درختوں کی نہایت خوبصورت شاخیں ہوں گی۔ اسی وجہ سے اس کا نام جنت ہے، اس میں داخل ہونے والے اس کے باغوں اور گہری چھاؤں سے فیض یاب ہوں گے اور اس میں رہنے والے اس میں عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔ ﴿تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ﴾ یعنی جنت میں پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گے انھیں جاری کر لیں گے اور جہاں چاہیں گے انھیں پھیر لیں گے۔ انھی نہروں سے جنت کے درخت سیراب ہوں گے اور مختلف اصناف کے پھل پیدا ہوں گے۔ ﴿کُلَّمَارُزِقُوْا مِنْھَامِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَامِنْ قَبْلُ﴾ ’’جب بھی ان کو اس میں سے کھانے کو کوئی پھل دیا جائے گا، تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہمیں دیا گیا‘‘ یعنی جنت کا یہ پھل دنیا کے پھلوں کی جنس میں سے ہوگا اس میں دنیا کے پھلوں کی سی صفات ہوں گی۔ خوبصورتی اور لذت میں جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ ان میں کوئی بدذائقہ پھل نہ ہوگا اور کوئی وقت ایسا نہ ہوگا جس میں اہل جنت لذت نہ اٹھا رہے ہوں گے بلکہ وہ دائمی طور پر جنت کے پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں گے۔ ﴿وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِھًا﴾ ’’اور دیے جائیں گے ان کو پھل ملتے جلتے‘‘ کہا جاتا ہے کہ (جنت کے پھل) نام میں مشابہت رکھتے ہیں اور ذائقے میں مختلف ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ رنگ میں مشابہت رکھتے ہیں مگر نام مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ وہ خوبصورتی، لذت اور مٹھاس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ شاید یہی تعبیر احسن ہے۔ پھر جہاں اہل جنت کے مساکن، ان کی خوراک، طعام و مشروبات اور پھلوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی بیویوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ مکمل اور واضح طور پر ان کا وصف بیان کیا ہے۔ ﴿وَلَھُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ﴾ ’’ان کے واسطے اس میں بیویاں ہوں گی پاک‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فلاں عیب سے پاک ہوں گی۔ کیونکہ یہ تطہیر، طہارت کی تمام اقسام پر مشتمل ہوگی۔ ان کے اخلاق پاک ہوں گے، ان کی تخلیق پاکیزگی پر مبنی ہوگی، ان کی زبان پاک ہوگی اور ان کی نظر پاک ہوگی۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگی یہ ہے کہ وہ دلکش ہوں گی اور اپنے اخلاق حسنہ، حسن اطاعت اور قولی و فعلی آداب کے ساتھ اپنے شوہروں سے اظہار محبت کریں گی۔ حیض و نفاس، منی، بول و براز، تھوک، بلغم اور بدبو سے پاک ہوں گی، نیز اپنی جسمانی تخلیق میں بھی پاک ہوں گی۔ وہ کامل حسن و جمال سے بہرہ ور ہوں گی۔ ان کے اندر کسی قسم کا عیب اور کسی قسم کی جسمانی بدصورتی نہ ہوگی بلکہ وہ نیک سیرت اور خوبصورت ہوں گی۔ وہ پاک نظر اور پاک زبان ہوں گی۔ وہ نیچی نگاہوں والی ہوں گی اور ان کی نگاہیں اپنے شوہروں سے آگے نہ بڑھیں گی۔ ان کی زبانیں ہر گندی بات سے محفوظ اور پاک ہوں گی۔ اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور کا ذکر کیا گیا ہے: (۱)خوشخبری دینے والا۔ (۲) جس کو خوشخبری دی گئی ہے۔ (۳) جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (۴) وہ سبب جو اس خوشخبری کا باعث بنتا ہے۔ خوشخبری دینے والے سے مراد رسول اللہeکی ذات یا وہ لوگ ہیں جو آپ کی امت میں سے (ابلاغ علم میں) آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ خوشخبری دیے جانے والے وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے وہ ہے جنت، جو بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔ اس خوشخبری کے باعث اور سبب سے مراد ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر اس خوشخبری کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے جو بہترین اسباب کے ذریعے سے افضل ترین ہستی کی زبان مبارک سے دی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو خوشخبری دینا اعمال صالحہ اور ان کے ثمرات کا ذکر کر کے ان میں نشاط پیدا کرنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح اعمال صالحہ آسان ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑی بشارت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح کی توفیق ہے۔ پس یہ اولین بشارت اور اس کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دوسری بشارت وہ ہے جو موت کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بشارت ہے جو نعمتوں سے بھرپور دائمی جنت میں پہنچ کر اسے حاصل ہو گی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [25]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF