Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
39
SuraName
تفسیر سورۂ زمر
SegmentID
1343
SegmentHeader
AyatText
{62} يخبرُ تعالى عن عظمتِهِ وكمالِهِ الموجبِ لخسرانِ مَنْ كَفَرَ به، فقال: {الله خالِقُ كلِّ شيءٍ}: هذه العبارة وما أشْبَهَها مما هو كثيرٌ في القرآن تدلُّ على أنَّ جميعَ الأشياءِ ـ غيرَ اللهِ ـ مخلوقةٌ؛ ففيها ردٌّ على كلِّ مَنْ قال بقدم بعض المخلوقاتِ؛ كالفلاسفة القائلين بقدم الأرضِ والسماواتِ، وكالقائلينَ بقِدَمِ الأرواح، ونحو ذلك من أقوال أهل الباطل المتضمِّنة تعطيلَ الخالق عن خَلْقِهِ، وليس كلامُ اللهِ من الأشياء المخلوقةِ؛ لأنَّ الكلام صفةُ المتكلم ـ والله تعالى بأسمائِهِ وصفاته أولٌ ليس قبلَه شيءٌ ـ؛ فأخذُ أهل الاعتزال من هذه الآية ونحوها أنَّه مخلوقٌ من أعظم الجهل؛ فإنَّه تعالى لم يَزَلْ بأسمائِهِ وصفاتِهِ، ولم يَحْدُثْ له صفةٌ من صفاتِهِ، ولم يكنْ معطَّلاً عنها بوقتٍ من الأوقات. والشاهدُ من هذا أنَّ الله تعالى أخبر عن نفسِهِ الكريمةِ أنَّه خالقٌ لجميع العالم العلويِّ والسفليِّ، وأنَّه {على كلِّ شيءٍ وكيلٌ}، والوكالةُ التامةُ لا بدَّ فيها من علم الوكيل بما كان وكيلاً عليه، وإحاطتِهِ بتفاصيلِهِ، ومن قدرةٍ تامَّةٍ على ما هو وكيلٌ عليه؛ ليتمكَّن من التصرُّف فيه، ومن حفظٍ لما هو وكيلٌ عليه، ومن حكمةٍ ومعرفةٍ بوجوه التصرُّفات ليصرِّفَها ويدبِّرَها على ما هو الأليقُ؛ فلا تتمُّ الوكالةُ إلاَّ بذلك كله؛ فما نَقَصَ من ذلك؛ فهو نقصٌ فيها. ومن المعلوم المتقرِّرِ أنَّ الله تعالى منزَّهٌ عن كل نقصٍ في صفةٍ من صفاتِهِ؛ فإخبارُهُ بأنَّه على كلِّ شيء وكيلٌ؛ يدلُّ على إحاطةِ علمِهِ بجميع الأشياء، وكمال قدرتِهِ على تدبيرِها، وكمال تدبيرِهِ، وكمال حكمتِهِ التي يَضَعُ بها الأشياءَ مواضِعَها.
AyatMeaning
[62] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عظمت و کمال کے متعلق آگاہ فرماتا ہے جو اس شخص کے لیے خسارے کا باعث ہیں جس نے ان کا انکار کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ خَالِـقُ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ یہ عبارت اور اس قسم کی دیگر عبارات، قرآن کریم میں بکثرت ملتی ہیں، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ (اور اس کے اسماء و صفات) کے سوا ہر چیز مخلوق ہے۔ اس آیت کریمہ میں ہر اس شخص کے نظریے کا رد ہے جو مخلوق کے قدیم ہونے کا قائل ہے، مثلاً: فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ آسمان اور زمین قدیم ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کے قول اور دیگر باطل نظریات کا بھی رد ہے جو روح کو قدیم مانتے ہیں۔ اہل باطل کے ان باطل نظریات کو مان لینے سے خالق کا اپنی تخلیق سے معطل ہونا لازم آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں کیونکہ کلام متکلم کی صفت ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اسماء و صفات کے ساتھ ہمیشہ سے موجود ہے، اس سے پہلے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ معتزلہ نے اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق ہے۔ یہ ان کی سب سے بڑی جہالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسماء و صفات سمیت قدیم ہے، اس کی صفات نئی پیدا ہوئی ہیں نہ اس سے کسی صفت کا تعطل ہواہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں خود خبر دی ہے کہ اس نے عالم علوی اور عالم سفلی کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز پر وکیل ہے۔ اور وکالتِ کامل میں وکیل کے لیے لازم ہے کہ وہ جس چیز کی وکالت کر رہا ہے اسے اس کا پورا علم ہو اور وہ اس کی تمام تفاصیل کا احاطہ کیے ہوئے ہو، جس چیز پر وہ وکیل ہے اس میں تصرف کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہو، اس کی حفاظت کر سکتا ہو، تصرف کے تمام پہلوؤ ں کی حکمت اور معرفت رکھتا ہو تاکہ بہترین طریقے سے اس میں تصرف اور اس کی تدبیر کر سکے۔ مذکورہ بالا تمام امور کے بغیر وکالت کی تکمیل ممکن نہیں۔ ان امور میں جتنا نقص واقع ہو گا اس کی وکالت بھی اتنی ہی ناقص ہوگی۔ یہ چیز متحقق اور معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں سے ہر صفت میں ہر قسم کے نقص سے منزہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا کہ وہ ہر چیز پر وکیل ہے دلالت کرتا ہے کہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ ہر چیز کی تدبیر پر کامل قدرت اور کامل حکمت رکھتا ہے جس کے ذریعے سے اس نے تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[62]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List