Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
39
SuraName
تفسیر سورۂ زمر
SegmentID
1322
SegmentHeader
AyatText
{10} أي: قل منادياً لأشرف الخَلْق، وهم المؤمنون، آمراً لهم بأفضل الأوامر، وهي التقوى، ذاكراً لهم السبب الموجب للتقوى، وهو ربوبيَّة الله لهم وإنعامُه عليهم، المقتضي ذلك منهم أن يَتَّقوه، ومن ذلك ما منَّ الله عليهم به من الإيمان؛ فإنَّه موجبٌ للتقوى؛ كما تقولُ: أيُّها الكريم تصدَّقْ! وأيُّها الشجاع قاتل! وذكر لهم الثوابَ المنشِّطَ في الدُّنيا، فقال: {للذين أحسنوا في هذه الدُّنيا}: بعبادة ربِّهم لهم {حسنةٌ}: رزقٌ واسعٌ ونفسٌ مطمئنةٌ وقلبٌ منشرحٌ؛ كما قال تعالى: {مَنْ عَمِلَ صالحاً من ذَكَرٍ أو أنثى وهو مؤمنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حياةً طيبةً}. {وأرضُ الله واسعةٌ}: إذا مُنِعْتُم من عبادتِهِ في أرض؛ فهاجِروا إلى غيرِها تعبُدون فيها ربَّكم وتتمكَّنون من إقامة دينِكم. ولمَّا قال: {للذين أحسنوا في هذه الدُّنيا حسنةٌ}؛ كان لبعض النفوس مجالٌ في هذا الموضع، وهو أنَّ النصَّ عامٌّ؛ أنَّه كل مَنْ أحسن؛ فله في الدُّنيا حسنةٌ؛ فما بالُ مَنْ آمن في أرض يُضْطَهَدُ فيها ويُمْتَهَنُ لا يحصل له ذلك؟ دَفَعَ هذا الظنَّ بقوله: {وأرضُ الله واسعةٌ}: وهنا بشارةٌ نصَّ عليها النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «لا تزال طائفةٌ من أمَّتي على الحقِّ ظاهرين لا يضرُّهم مَنْ خَذَلَهم ولا من خالَفَهم حتى يأتي أمرُ الله وهم على ذلك». تشير إليه هذه الآية وترمي إليه من قريب، وهو أنَّه تعالى أخبر أنَّ أرضَه واسعةٌ؛ فمهما مُنِعْتُم من عبادته في موضع؛ فهاجروا إلى غيرها. وهذا عامٌّ في كلِّ زمان ومكان؛ فلا بدَّ أن يكونَ لكلِّ مهاجرٍ ملجأ من المسلمين يلجأ إليه وموضعٌ يتمكَّن من إقامة دينِهِ فيه. {إنَّما يُوَفَّى الصابرون أجْرَهُم بغير حسابٍ}: وهذا عامٌّ في جميع أنواع الصبر: الصبر على أقدار الله المؤلمةِ؛ فلا يتسخَّطُها، والصبر عن معاصيه؛ فلا يرتكبها، والصبر على طاعته حتى يؤدِّيَها، فوعد الله الصابرينَ أجرهم بغير حسابٍ؛ أي: بغير حدٍّ ولا عدٍّ ولا مقدارٍ، وما ذاك إلا لفضيلة الصبر ومحلِّه عند الله، وأنَّه معينٌ على كلِّ الأمور.
AyatMeaning
[10] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اشرف المخلوقات یعنی اہل ایمان کو دینی امور میں سے سب سے بہتر چیز تقوی کا حکم دیتے ہوئے کہہ دیجیے اور ان کے سامنے اس سبب کا بھی ذکر کیجیے جو تقویٰ کا موجب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی نعمتوں کا اقرار، جو ان سے تقویٰ اختیار کرنے کا تقاضا کرتی ہیں اور ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا، جو تقویٰ کا موجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کسی سخی شخص سے کہیں ’’اے سخی! صدقہ کر‘‘ اور کسی بہادر شخص سے کہیں ’’اے بہادر لڑائی کر۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا ذکر فرمایا جو دنیا میں ان کے اندر نشاط پیدا کرتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا ﴾ ’’جنھوں نے اس دنیا میں نیکی کی‘‘ اپنے رب کی عبادت کے ذریعے سے تو ان کے لیے ﴿حَسَنَةٌ ﴾ ’’بھلائی‘‘ لامحدود رزق، نفس مطمئنہ اور انشراح قلب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ﴾ (النحل: 16؍97) ’’جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، ہم اسے نہایت پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘ ﴿وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ﴾ ’’اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔‘‘ یعنی اگر تمھیں زمین کے کسی خطے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو زمین کے کسی دوسرے خطے کی طرف ہجرت کر جاؤ جہاں تم اپنے رب کی عبادت کر سکو اور جہاں تمھارے لیے اقامت دین ممکن ہو۔جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ ﴾ اور چونکہ یہ نص عام ہے… تو اس مقام پر بعض لوگوں کے لیے یہ کہنے کی مجال تھی کہ جو شخص بھی نیک کام کرے گا اس کے لیے دنیا میں بھلائی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہے جو کسی خطۂ زمین میں ایمان لایا بایں ہمہ وہ مظلوم اور محکوم و مجبور ہے اور وہ اس بھلائی سے محروم ہے؟ اس لیے اس گمان کا جواب ان الفاظ میں فرمایا: ﴿وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ﴾ ’’اور اللہ کی زمین بڑی فراخ ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے۔ حضرت نبی اکرم e نے بھی اس بشارت کو ان الفاظ میں منصوص فرمایا ’’میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کسی کا ان سے علیحدہ ہونا اور مخالفت کرنا انھیں کوئی نقصان نہ دے سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے گا اور یہ گروہِ حق اسی نہج پر ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿انما قولنا لشئی اذا اردنٰہ﴾‘ ح:7460۔ وصحیح مسلم، الجہاد، باب قولہﷺ لاتزال طائفۃ من امتي…، ح: 1920۔) یہ آیت کریمہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس کی زمین بہت کشادہ ہے اس لیے جب کبھی بھی کسی جگہ تمھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو تم کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاؤ ۔ ہر زمان و مکان میں یہ حکم عام ہے۔ تب لازم ٹھہرا کہ ہر ہجرت کرنے والے مومن کے لیے مسلمانوں کے اندر کوئی ٹھکانا ہو جہاں وہ پناہ لے سکے اور ایک جگہ ہو جہاں وہ اپنے دین کو قائم کر سکے۔ ﴿اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰؔبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ ’’جو صبر کرنے والے ہیں، انھیں بے شمار ثواب ملے گا۔‘‘ یہ آیت کریمہ صبر کی تمام انواع کے لیے عام ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر اس طرح صبر کرنا کہ اس میں ناراضی کا شائبہ نہ ہو، گناہ اور معاصی کے مقابلے میں صبر کرتے ہوئے ان کے ارتکاب سے بچنا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرتے ہوئے اس پر قائم رہنا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے صبر شعار لوگوں کے لیے بے حساب اجر کا وعدہ کیا ہے، یعنی کسی حد، تعداد اور مقدار کے بغیر۔ یہ صبر کی فضیلت ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس موقع ومحل ہے اور بلاشبہ یہ ہر معاملے میں معین ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[10]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List