Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 39
- SuraName
- تفسیر سورۂ زمر
- SegmentID
- 1317
- SegmentHeader
- AyatText
- {3} {ألا لله الدينُ الخالصُ}: هذا تقريرٌ للأمر بالإخلاص، وبيانُ أنَّه تعالى كما أنَّه له الكمال كلُّه وله التفضُّل على عباده من جميع الوجوه؛ فكذلك له الدينُ الخالصُ الصافي من جميع الشوائب؛ فهو الدين الذي ارتضاه لنفسه وارتضاه لصفوةِ خلقِهِ وأمَرَهُم به؛ لأنه متضمنٌ للتألُّه لله في حبه وخوفه ورجائِهِ والإنابةِ إليه في عبوديَّته والإنابة إليه في تحصيل مطالب عباده، وذلك الذي يُصْلِحُ القلوبَ ويزكِّيها ويطهِّرها؛ دون الشرك به في شيء من العبادة؛ فإنَّ الله بريءٌ منه، وليس لله فيه شيءٌ؛ فهو أغنى الشركاء عن الشرك، وهو مفسدٌ للقلوب والأرواح والدنيا والآخرة، مشقٍ للنفوس غاية الشقاء. فلذلك لمَّا أمر بالتوحيد والإخلاص؛ نهى عن الشرك به، وأخبر بذمِّ مَنْ أشرك به، فقال: {والذين اتَّخذوا من دونِهِ أولياءَ}؛ أي: يتولَّوْنَهم بعبادتهم ودعائهم، متعذِرين عن أنفسِهم، وقائلين: {ما نعبُدُهم إلاَّ لِيُقَرِّبونا إلى الله زُلْفَى}؛ أي: لترفعَ حوائجنا لله، وتشفعَ لنا عنده، وإلاَّ؛ فنحن نعلمُ أنَّها لا تخلُقُ ولا ترزقُ ولا تملكُ من الأمر شيئاً؛ أي: فهؤلاء قد تركوا ما أمَرَ الله به من الإخلاص، وتجرؤوا على أعظم المحرَّمات، وهو الشرك، وقاسوا الذي ليس كمثلِهِ شيءٌ الملك العظيم بالملوك، وزعموا بعقولهم الفاسدةِ ورأيِهِم السقيم أنَّ الملوك كما أنَّه لا يوصَلُ إليهم إلاَّ بوجهاء وشفعاء ووزراء يرفعون إليهم حوائج رعاياهم ويستعطِفونهم عليهم ويمهِّدونَ لهم الأمر في ذلك؛ أنَّ الله تعالى كذلك! وهذا القياس من أفسد الأقيسة، وهو يتضمَّن التسويةَ بين الخالق والمخلوق، مع ثُبوت الفرق العظيم عقلاً ونقلاً وفطرةً؛ فإنَّ الملوك إنَّما احتاجوا للوساطة بينهم وبين رعاياهم؛ لأنَّه لا يعلمون أحوالَهم، فيُحتَاجُ مَنْ يُعْلِمُهُمْ بأحوالهم، وربَّما لا يكون في قلوبهم رحمةٌ لصاحب الحاجة، فيحتاج مَنْ يُعَطِّفُهم عليه، ويسترحِمُه لهم، ويحتاجون إلى الشفعاء والوزراء، ويخافون منهم، فيقضون حوائجَ من توسَّطوا لهم مراعاةً لهم ومداراةً لخواطِرِهم، وهم أيضاً فقراءُ؛ قد يمنعون لما يخشَوْن من الفقر، وأمَّا الربُّ تعالى؛ فهو الذي أحاط علمُهُ بظواهر الأمور وبواطنها، الذي لا يحتاجُ مَنْ يخبِرُهُ بأحوال رعيَّته وعباده، وهو تعالى أرحم الراحمين، وأجود الأجودين، لا يحتاجُ إلى أحدٍ من خلقِهِ يجعله راحماً لعباده، بل هو أرحم بهم من أنفسهم ووالديهم، وهو الذي يحثُّهم ويدعوهم إلى الأسباب التي ينالون بها رحمته، وهو يريدُ من مصالِحِهم ما لا يريدونَه لأنفسِهِم، وهو الغنيُّ، الذي له الغنى التامُّ المطلقُ، الذي لو اجتمع الخلقُ من أولهم وآخرهم في صعيدٍ واحدٍ، فسألوه، فأعطى كلاًّ منهم ما سأل وتمنَّى؛ لم يَنقصوا غناه شيئاً، ولم يَنقصوا مما عنده إلاَّ كما يَنْقُصُ البحرُ إذا غُمِسَ فيه المِخْيَطُ، وجميع الشفعاء يخافونه؛ فلا يشفعُ منهم أحدٌ إلاَّ بإذنه، وله الشفاعةُ كلُّها؛ فبهذه الفروق يُعلم جهلُ المشركين به وسفهُهُم العظيمُ وشدَّةُ جراءتهم عليه، ويُعْلَم أيضاً الحكمة في كون الشرك لا يغفره الله تعالى؛ لأنَّه يَتَضَمَّن القدحَ في الله تعالى، ولهذا قال حاكماً بين الفريقين المخلِصين والمشرِكين وفي ضمنه التهديد للمشركين: {إنَّ الله يَحْكُمُ بينَهم فيما هم فيه يختلفونَ}: وقد عُلِمَ أنَّ حُكْمَهُ أنَّ المؤمنين المخلصين في جنات النعيم، ومن يشرك بالله؛ فقد حرَّم الله عليه الجنة ومأواه النار. {إنَّ الله لا يهدي}؛ أي: لا يوفِّق للهداية إلى الصراط المستقيم {من هو كاذبٌ كفَّارٌ}؛ أي: وصفه الكذبُ أو الكفر؛ بحيث تأتيه المواعظُ والآيات ولا يزول عنه ما اتَّصف به، ويُريه الله الآياتِ فيَجْحَدُها ويكفرُ بها ويكذبُ؛ فهذا أنَّى له الهدى وقد سدَّ على نفسه الباب، وعوقِبَ بأن طَبَعَ الله على قلبِهِ فهو لا يؤمنُ.
- AyatMeaning
- [3] ﴿اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ﴾ آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اخلاص کے حکم کو متحقق کرتا ہے اور اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام تر کمال کا مالک ہے اور اس نے اپنے بندوں کو ہر لحاظ سے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے اسی طرح ہر قسم کے شک وشبے سے پاک دین خالص بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پسند فرمایا اور مخلوق میں سے چنے ہوئے بندوں کے لیے منتخب فرمایا اور اسی کو اختیار کرنے کا اپنے بندوں کو حکم دیا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت کے ذریعے سے بندوں کے مطالب کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو متضمن ہے۔ یہی وہ دین ہے جو قلوب کی اصلاح کر کے ان کو پاک اور ان کی تطہیر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کسی بھی قسم کی عبادت میں شرک کرنا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے بری الذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا شرک سے کوئی تعلق نہیں اور وہ شریکوں سے، سب سے زیادہ بے نیاز ہے۔ شرک قلب و روح اور دنیاوآخرت کو فاسد کرتا ہے اور نفوس کو بدبختی کی انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ اس لیے جہاں اللہ تعالیٰ نے توحید اور اخلاص کا حکم دیا ہے، وہاں شرک سے بھی روکا ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی خبر دی ہے جنھوں نے شرک کا ارتکاب کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ اتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ ﴾ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں وہ انھیں اپنا والی و مددگار بناتے ہیں وہ اپنا عذر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْ٘فٰى ﴾ ’’ہم انھیں صرف ، اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری حاجتیں پیش کریں اور اس کے ہاں ہماری سفارش کریں۔ ورنہ درحقیقت ہمیں معلوم ہے کہ یہ کوئی چیز پیدا کر سکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں اور نہ انھیں کسی قسم کا کچھ اختیار ہی حاصل ہے۔ یعنی ان مشرکین نے اخلاص کو چھوڑ دیا جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ سب سے بڑی چیز، یعنی شرک کاارتکاب کیا اور اس ہستی کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کیا جس کی نظر کوئی چیز نہیں، جو عظیم بادشاہ ہے۔ وہ اپنی فاسد عقل اور سقیم رائے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کی خدمت میں ان کے مقربین، سفارشیوں اور وزیروں کے بغیر حاضر نہیں ہوا جاسکتا جو رعایا کی ضروریات اور حاجتیں ان بادشاہوں تک پہنچاتے ہیں، رعایا کے لیے بادشاہوں سے رحم طلب کرتے ہیں ان بادشاہوں کے پاس رعایا کے معاملات پیش کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ بھی ان بادشاہوں کی مانند ہے۔ یہ فاسد ترین قیاس ہے کیونکہ عقل و نقل اور فطرت کے مطابق خالق اور مخلوق کے درمیان عظیم فرق ہونے کے باوجود یہ قیاس خالق اور مخلوق میں مساوات کو متضمن ہے۔ بادشاہ براہ راست رعایا کے احوال نہیں جانتے اس لیے انھیں اپنے اور رعایا کے درمیان واسطے کی ضرورت ہوتی ہے، رعایا کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بادشاہوں تک ان کے حالات پہنچائیں۔ بسااوقات ان بادشاہوں کے دلوں میں ضرورت مند کے لیے کوئی رحم نہیں ہوتا تب رعایا سفارش کرنے والوں اور وزراء وغیرہ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان سے ڈرتے ہیں ۔ یہ لوگ بادشاہوں کے ہاں ان کے لیے مراعات کے حصول اور ان کی دلجوئی کے لیے واسطہ بننے والے سفارشیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بسااوقات رعایا خود محتاج اور مفلس ہوتی ہے اس لیے وہ محتاجی کے ڈر سے ان کی خاطرومدارات نہیں کر سکتی۔ جہاں تک رب تعالیٰ کا معاملہ ہے تووہ ایسی ہستی ہے جس کے علم نے تمام امور کے ظاہر اور باطن کا احاطہ کر رکھا ہے، وہ کسی ایسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے اس کے بندوں اور اس کی رعایا کے احوال سے آگاہ کرے، وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا اور سب سے بڑھ کر سخی ہے، وہ مخلوق میں سے کسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے بندوں پر رحم کرنے پر آمادہ کرے بلکہ رب تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جو وہ خود اپنے آپ پر یا ان کے والدین ان پر رحم کرتے ہیں۔ وہ انھیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کریں جن کی بنا پر وہ اس کی رحمت کو حاصل کر لیں وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے جو وہ خود بھی اپنے لیے نہیں چاہتے۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے جو کامل غنائے مطلق کا مالک ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ اگر اول سے لے کر آخر تک تمام مخلوق، ایک میدان میں اکٹھی ہو جائے اور وہ اس سے اپنی اپنی ضرورت اور تمنا کے مطابق سوال کریں تو وہ سب کو عطا کرے گی۔ وہ اس کی غنا میں سے ذرہ بھر کمی کر سکتے ہیں نہ اس کے خزانوں میں، مگر اتنی سی کہ جو سمندر میں سوئی ڈبونے سے اس کے پانی میں کمی واقع ہوتی ہے، پھر تمام سفارشی اس سے ڈرتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا۔ تمام تر سفارش کا صرف وہی مالک ہے۔ اس فرق سے مشرکین کی جہالت، حماقت اور اللہ کے حضور ان کی جسارت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ شرک کے مرتکب کے لیے عدم مغفرت میں کیا حکمت ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ شرک اللہ تعالیٰ کی ذات میں جرح و قدح کو متضمن ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فریقین، یعنی مخلص مومنوں اور مشرکین کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا… اور اس میں مشرکین کے لیے تہدید بھی ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ فِیْ مَا هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ﴾ ’’بے شک جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں، اللہ ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ معلوم ہے جو یہ ہے کہ مخلص اہل ایمان، نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے اور جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ راہ راست پر گامزن ہونے کی توفیق عطا نہیں کرتا ﴿مَنْ هُوَؔ كٰذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ ’’اس شخص کو جو جھوٹا اور ناشکرا ہو‘‘ یعنی جس کا وصف کذب اور کفر ہے، اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور نصیحتیں آتی ہیں، مگر اس کے برے اوصاف دور نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ اسے بڑے بڑے معجزات دکھاتا ہے، مگر یہ ان کا انکار کر دیتا ہے ان کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ پس ان حالات میں ایسے شخص کے لیے ہدایت کیسے ہوسکتی ہے جس نے اپنے لیے ہدایت کا دروازہ بند کردیا ہو اور انجام کے طورپر اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر مہر لگا دی پس وہ ایمان نہیں لائے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [3]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF