Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
38
SuraName
تفسیر سورۂ ص
SegmentID
1310
SegmentHeader
AyatText
AyatMeaning
فوائد حضرت داؤ د اور سلیمانi کے قصے سے مندرجہ ذیل فوائد اور حکمتیں مستفاد ہوتی ہیں: ۱۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe کے سامنے آپ سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ آپ کی ہمت بندھاتا رہے اور آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی عبادت، ان کے صبر کی شدت اور ان کی انابت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ آپ میں آگے بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا شوق اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کا جذبہ پیدا ہو۔ بنا بریں اس مقام پر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی اذیت رسانی، آپ کے اور آپ کی دعوت کے بارے میں ان کی بدکلامی کا ذکر کیا تو آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی تلقین کی کہ آپ اس کے بندے داؤ دu کو یاد کر کے اس سے تسلی حاصل کریں۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت میں استعمال ہونے والی قوت قلب اور قوت بدن کو پسند کرتا ہے اور اس کی مدح کرتا ہے، کیونکہ قوت کے ذریعے سے اطاعت الٰہی کے آثار، اس کی خوبی اور اس کی جو کثرت حاصل ہوتی ہے وہ کمزوری اور عدم قوت سے حاصل نہیں ہوتی۔ نیز آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اسباب قوت کے حصول کی کوشش کرتا رہے اور نفس کو کمزور کرنے والی بے کاری اور سستی کی طرف مائل ہونے سے بچے۔ ۳۔ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کی خاص مخلوق کا وصف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وصف کی بنا پر حضرت داؤ د اور حضرت سلیمانi کی مدح و ثنا کی ہے۔ اقتدا کرنے والوں کو چاہیے کہ ان کی اقتدا کریں اور اہل سلوک ان کی راہ پر گامزن ہوں۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰؔىهُمُ اقْتَدِهْ ﴾ (الانعام:6؍90) ’’یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا، لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔‘‘ ۴۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی داؤ دu کو بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا جس کے سبب سے ٹھوس پہاڑ اور پرندے جھوم اٹھتے تھے۔ جب آپ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے تو پرندے اور پہاڑ بھی آپ کے ساتھ تسبیح بیان کرتے۔ ۵۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے علم نافع عطا کرے، اسے دانائی اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے سرفراز کرے جیسا کہ اس نے اپنے بندے حضرت داؤ دu کو ان صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ۶۔ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندوں اور اس کے انبیاء و رسل سے کوئی خلل واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں آزمائش اور ابتلا میں مبتلا کرتا ہے جس سے یہ خلل زائل ہو جاتا ہے اور وہ پہلے حال سے بھی زیادہ کامل حال کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت داؤ د اور حضرت سلیمانi کو آزمائش پیش آئی۔ ۷۔ انبیاء ومرسلین اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں خطا سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں کیونکہ اس وصف کے بغیر رسالت کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا لیکن کبھی کبھی طبیعت بشری کے تقاضوں کی بنا پر کسی معصیت کا ارتکاب ہو جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے فوراً اس کا تدارک کر دیتا ہے۔ ۸۔ آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت داؤ دu اپنے غالب احوال میں، اپنے رب کی عبادت کے لیے اپنے محراب میں گوشہ نشین رہتے تھے، اسی لیے دونوں جھگڑنے والے اشخاص کو دیوار پھاند کر محراب میں آنا پڑا کیونکہ حضرت داؤ دu جب اپنی محراب میں چلے جاتے تو کوئی ان کے پاس نہ جا سکتا تھا۔ آپ کے پاس لوگوں کے بکثرت مقدمات آنے کے باوجود اپنا تمام وقت لوگوں کے لیے صرف نہیں کرتے تھے بلکہ انھوں نے اپنے لیے کچھ وقت مقرر کیا ہوا تھا جس میں خلوت نشیں ہو کر اپنے رب کی عبادت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے تھے۔ یہ عبادت تمام امور میں اخلاص کے لیے ان کی مدد کرتی تھی۔ ۹۔ حضرت داؤ دu کے قصہ سے مستنبط ہوتا ہے کہ حکاّم کے پاس حاضر ہونے میں ادب کو استعمال میں لایا جائے کیونکہ مذکورہ بالا دونوں اشخاص جب اپنا جھگڑا لے کر حضرت داؤ دu کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عام دروازے اور اس راستے سے آپ کے پاس نہیں گئے جو عام طور پر استعمال میں آتا تھا اس لیے حضرت داؤ دu ان کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ یہ چیز آپ پر نہایت گراں گزری، ان کے خیال میں یہ صورت حال آپ کے لائق نہ تھی۔ ۱۰۔ جھگڑے کے کسی فریق کی طرف سوئے ادبی اور اس کا ناگوار رویہ حاکم کو حق کے مطابق فیصلہ کرنے سے نہ روکے۔ ۱۱۔ ان آیات مبارکہ سے حضرت داؤ دu کے کمال حلم کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ جب مذکورہ بالا دونوں شخص آپ کی اجازت طلب کیے بغیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے… حالانکہ آپ وقت کے بادشاہ تھے… تو آپ ان پر ناراض ہوئے نہ ان کو جھڑکا اور نہ ہی انھیں کوئی زجروتوبیخ کی۔ ۱۲۔ آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مظلوم کے لیے ظالم کو اس قسم کے الفاظ سے مخاطب کرنا جائز ہے۔ ’’تو نے مجھ پر ظلم کیا‘‘ ’’اے ظالم‘‘! ’’اے مجھ پر زیادتی کرنے والے! ‘‘وغیرہ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں کہا تھا ﴿خَ٘صْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ ﴾ (صٓ: 38؍22) ’’ہم مقدے کے دو فریق ہیں۔ جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی۔‘‘ ۱۳۔ کوئی آدمی خواہ وہ کتنا ہی جلیل القدر اور صاحب علم کیوں نہ ہو، جب کوئی شخص خیرخواہی کرتے ہوئے اس کو نصیحت کرے تو اسے ناراض ہونا چاہیے نہ یہ نصیحت اس کو ناگوار گزرنی چاہیے بلکہ شکر گزاری کے ساتھ اسے قبول کر لینا چاہیے۔ کیونکہ مقدمے کے فریقین نے حضرت داؤ دu کو نصیحت کی تو آپ نے برا منایا نہ ناراض ہوئے اور نہ اس چیز نے آپ کو راہ حق سے ہٹایا بلکہ آپ نے صریح حق کے ساتھ فیصلہ کیا۔ ۱۴۔ اس قصہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا باہمی اختلاط، دنیاوی اور مالی تعلقات کی کثرت ان کے درمیان عداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کی موجب بنتی ہے، نیز یہ کہ اس قسم کی صورت حال سے صرف تقویٰ اور ایمان و عمل پر صبر ہی کے ذریعے سے بچا جا سکتا ہے اور یہی چیز لوگوں میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ ۱۵۔ ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ استغفار اور عبادت، خاص طور پر نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ دu کی لغزش کی بخشش کو آپ کے استغفار اور سجود پر مترتب فرمایا۔ ۱۶۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں حضرت داؤ د اور حضرت سلیمانi کو اکرام و تکریم، اپنے قرب اور بہترین ثواب سے سرفراز فرمایا۔ ان کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجہ میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر کامل لطف و کرم ہے کہ جب وہ ان کی لغزشوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے گناہوں کے اثرات کو زائل کر دیتا ہے تو ان پر مترتب ہونے والے تمام آثار کو بھی زائل کر دیتا ہے یہاں تک کہ ان اثرات کو مٹا دیتا ہے جو مخلوق کے دلوں میں واقع ہوتے ہیں کیونکہ جب مخلوق کو ان کے گناہ کا علم ہوتا ہے تو ان دلوں میں ان کا درجہ کم ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں میں اس اثر کو زائل کر دیتا ہے اور کریم و غفار کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ۱۷۔ لوگوں کے درمیان فیصلے کرنا ایک دینی منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور خاص بندوں کو مقرر فرمایا ہے، جسے یہ ذمہ داری سونپی جائے اسے حق کے ساتھ اور خواہشات نفس سے الگ ہو کر فیصلہ کرناچاہیے۔ حق کے ساتھ فیصلے کرنا امور شرعیہ کے علم، محکوم بہ مقدمے کی صورت کے علم اور اس کو حکم شرعی میں داخل کرنے کی کیفیت کے علم کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا جو شخص ان میں سے کسی ایک کے علم سے بے بہرہ ہے وہ فیصلہ کرنے کے منصب کا اہل نہیں۔ اسے فیصلہ کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ ۱۸۔ حاکم کو چاہیے کہ وہ خواہش نفس سے بچے اور اس سے کنارہ کش رہے کیونکہ نفس خواہشات سے خالی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرے تاکہ حق ہی اس کا مقصود و مطلوب ہو۔ فیصلہ کرتے وقت مقدمے کے فریقین میں سے کسی کے لیے محبت یا کسی کے لیے ناراضی دل سے نکال دے۔ ۱۹۔ حضرت سلیمانu حضرت داؤ دu کے فضائل ہی میں سے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت داؤ دu پر احسان تھا کہ اس نے آپ کو سلیمانu سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے صالح اولاد عطا کرے اور اگر اولاد عالم فاضل ہو تو یہ نور علیٰ نور ہے۔ ۲۰۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت سلیمانu کی مدح و ثنا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿نِعْمَ الْعَبْدُ١ؕ اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ﴾ ’’بہت اچھا بندہ اور نہایت کثرت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔‘‘ ۲۱۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے خیرکثیر اور ان پر احسان ہے کہ وہ انھیں صالح اعمال اور مکارم اخلاق کی توفیق سے سرفراز کرتا ہے ، پھر ان اخلاق و اعمال کی بنا پر ان کی مدح و ثنا کرتا ہے، حالانکہ وہ خود ہی عطا کرنے والا ہے۔ ۲۲۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانu اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دیتے تھے۔ ۲۳۔ ان آیات سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ سے غافل کر کے اپنے اندر مشغول کر لے وہ مذموم اور منحوس ہے۔ بندۂ مومن چاہیے کہ وہ اس سے علیحدہ ہو جائے اور اس چیز کی طرف توجہ دے جو اس کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ ۲۴۔ ان آیات کریمہ سے یہ مشہور قاعدہ مستفاد ہوتا ہے کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیزترک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے‘‘ چنانچہ سلیمانu نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو مقدم رکھتے ہوئے، سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کو ذبح کر دیا، جو نفوس کو بہت محبوب ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر عوض عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے نرم رفتار ہوا کو مسخر کر دیا، جو آپ کے حکم سے اسی سمت میں جس کا آپ قصد و ارادہ کرتے، صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے شیاطین کو مسخر کر دیا جو ایسے کام کر سکتے تھے جنھیں کرنے پر انسان قادر نہ تھے۔ ۲۵۔ سلیمانu ایک بادشاہ اور نبی تھے جو اپنی من مرضی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے عدل و انصاف کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہ کیا۔ نبیٔ عبد کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوتا ہے اس کا ہر فعل و ترک صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے نبی محمد مصطفیٰ e کا حال تھا اور یہ زیادہ کامل حال ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List