Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
38
SuraName
تفسیر سورۂ ص
SegmentID
1308
SegmentHeader
AyatText
{24} فقال داود لما سمع كلامَه، ومن المعلوم من السياق السابق من كلامِهِما أنَّ هذا هو الواقع؛ فلهذا لم يحتج أن يتكلَّم الآخرُ؛ فلا وجهَ للاعتراض بقول القائل: لِمَ حَكَمَ داودُ قبل أن يسمعَ كلام الخصم الآخر؟ {لقد ظَلَمَكَ بسؤال نعجتِكَ إلى نعاجِهِ}: وهذه عادةُ الخُلَطاء والقرناءِ الكثير منهم، فقال: {وإنَّ كثيراً من الخُلَطاءِ لَيَبْغي بعضُهم على بعضٍ}: لأنَّ الظُّلم من صفة النفوس {إلاَّ الذين آمنوا وعملوا الصالحاتِ}: فإنَّ ما مَعَهم من الإيمان والعمل الصالح يمنعُهم من الظُّلم، {وقليلٌ ما هم}؛ كما قال تعالى: {وقليلٌ من عِبادي الشَّكُورُ}. {وظنَّ داودُ}: حين حَكَمَ بينَهما {أنَّما فَتَنَّاهُ}؛ أي: اختبرناه ودبَّرْنا عليه هذه القضيةَ ليتنبَّهَ، {فاسْتَغْفَرَ ربَّه}: لما صدر منه، {وخَرَّ راكعاً}؛ أي: ساجداً، {وأناب}: لله تعالى بالتوبة النصوح والعبادة.
AyatMeaning
[24] جب داؤ دu نے اس کی بات سنی… فریقین کی باتوں کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا تھا کہ فی الواقع ایسا ہوا ہے، اس لیے حضرت داؤ دu نے ضرورت نہ سمجھی کہ دوسرا فریق بات کرے ، لہٰذا اعتراض کرنے والے کے لیے اس قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت داؤ دu نے فریق ثانی کا موقف سننے سے پہلے فیصلہ کیوں کیا؟ تو فرمایا: ﴿لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ﴾ ’’یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے بے شک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔‘‘ اکثر ساتھ اور مل جل کر رہنے والوں کی یہی عادت ہے، بنا بریں فرمایا: ﴿وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْؔخُلَطَآءِ لَ٘یَبْغِیْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ ’’اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔‘‘ کیونکہ ظلم کرنا نفوس کا وصف ہے ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔‘‘ کیونکہ انھیں ایمان اور عمل صالح کی معیت حاصل ہوتی ہے جو انھیں ظلم سے باز رکھتے ہیں۔ ﴿وَقَلِیْلٌ مَّا هُمْ ﴾ ’’اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ ﴾ (سبا: 34؍13) ’’اور میرے بندوں میں کم لوگ ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔‘‘ ﴿وَظَ٘نَّ دَاوٗدُ ﴾ جب حضرت داؤ دu نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کیا تو آپ سمجھ گئے کہ ﴿اَنَّمَا فَتَنّٰهُ ﴾ یعنی ہم نے حضرت داؤ دu کی آزمائش کے لیے یہ مقدمہ بنا کر ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ﴾ جب آپ سے لغزش سرزد ہوئی تو آپ نے اپنے رب سے بخشش طلب کی ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا ﴾ ’’اور جھک کر گر پڑے۔‘‘ یعنی سجدے میں گر پڑے ﴿وَّاَنَابَ﴾ اور سچی توبہ اور عبادت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔
Vocabulary
AyatSummary
[24]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List