Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 11
- SegmentHeader
- AyatText
- {24} وهذه الآية ونحوها يسمونها: آية التحدي، وهو: تعجيز الخلق عن أن يأتوا بمثل هذا القرآن أو يعارضوه بوجه، قال تعالى: {قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يأتوا بمثل هذا القرآن لا يأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيراً}؛ وكيف يقدر المخلوق من تراب أن يكون كلامه ككلام رب الأرباب، أم كيف يقدر الفقير الناقص من جميع الوجوه أن يأتي بكلام ككلام الكامل، الذي له الكمال المطلق، والغنى الواسع من جميع الوجوه ؟ هذا ليس في الإمكان ولا في قدرة الإنسان، وكل من له أدنى ذوق ومعرفة بأنواع الكلام ، إذا وزن هذا القرآن [العظيم] بغيره من كلام البلغاء، ظهر له الفرق العظيم. وفي قوله: {وإن كنتم في ريب}؛ إلى آخره، دليل على أن الذي يرجى له الهداية من الضلالة هو الشاك الحائر، الذي لم يعرف الحق من الضلالة، فهذا الذي إذا بين له الحق حري باتباعه إن كان صادقاً في طلب الحق، وأما المعاند الذي يعرف الحق ويتركه، فهذا لا يمكن رجوعه؛ لأنه ترك الحق بعد ما تبين له، لم يتركه عن جهل فلا حيلة فيه، وكذلك الشاكُّ الذي ليس بصادق في طلب الحق بل هو معرض غير مجتهد بطلبه؛ فهذا في الغالب لا يوفق. وفي وصف الرسول بالعبودية في هذا المقام العظيم دليل على أن أعظم أوصافه - صلى الله عليه وسلم - قيامه بالعبودية التي لا يلحقه فيها أحد من الأولين والآخرين، كما وصفه بالعبودية في مقام الإسراء فقال: {سبحان الذي أسرى بعبده ليلاً}؛ وفي مقام الإنزال فقال: {تبارك الذي نزل الفرقان على عبده ليكون للعالمين نذيراً}. وفي قوله: {أعدت للكافرين}؛ ونحوها من الآيات دليل لمذهب أهل السنة والجماعة أن الجنة والنار مخلوقتان، خلافاً للمعتزلة. وفيها أيضاً: أن الموحدين وإن ارتكبوا بعض الكبائر لا يخلدون في النار لأنه قال: {أعدت للكافرين}؛ فلو كان عصاة الموحدين يخلدون فيها لم تكن معدة للكافرين وحدهم، خلافاً للخوارج والمعتزلة وفيها: دلالة على أن العذاب مُستَحَق بأسبابه وهو الكفر وأنواع المعاصي على اختلافها.
- AyatMeaning
- [24] اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات کو آیات تحدی (مقابلہ کرنے کی دعوت دینے والی آیات) کہا جاتا ہے ’’تحدی‘‘ سے مراد ہے مخلوق کو قرآن جیسی کوئی کتاب پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز کر دینا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُ٘لْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْ٘سُ وَالْ٘جِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْ٘لِ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ لَا یَ٘اْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ٘ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍88) ’’کہو اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں تو اس جیسا قرآن بنا کر نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ پس مشت خاک سے بنے ہوئے انسان کا کلام رب الارباب کے کلام کی مانند کیسے ہو سکتا ہے؟ یا ناقص اور تمام پہلوؤں سے محتاج ہستی اس کامل ہستی کے کلام جیسا کلام کیسے پیش کر سکتی ہے جو تمام پہلوؤں سے کمال مطلق کی اور بے پایاں بے نیازی کی مالک ہے؟ یہ چیز دائرہ امکان اور انسانی بساط سے باہر ہے۔ ہر وہ شخص جو کلام کی مختلف اصناف کی تھوڑی بہت بھی معرفت رکھتا ہے جب قرآن کا اصحاب بلاغت کے کلام سے تقابل کرے گا تو اس پر ظاہر ہو جائے گا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ﴾ ’’اگر تم شک میں مبتلا ہو۔‘‘ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے لیے ہدایت کی توقع کی جا سکتی ہے یہ وہ شخص ہے جو شک میں مبتلا اور حیران و پریشان ہے۔ جو گمراہی میں سے حق کو نہیں پہچان سکتا۔ اگر وہ طلب حق میں سچا ہے تو اس کے لیے حق واضح ہو جانے کے بعد اس کا اتباع کرنا زیادہ مناسب ہے۔ وہ شخص جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کر دیتا ہے اس کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس نے حق کو اپنی جہالت کی وجہ سے ترک نہیں کیا بلکہ اس نے حق کو اس کے واضح ہو جانے کے بعد رد کیا ہے۔ اسی طرح وہ متشکک شخص جو تلاش حق میں سچا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ وہ حق سے گریز کرتا ہے اور تلاش حق میں تگ و دو نہیں کرتا وہ اکثر و بیشتر قبول حق کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔ اس مقام عظیم پر رسول اللہeکے وصف عبدیت کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عبدیت آپ کی سب سے بڑی صفت ہے اس مقام بلند تک اولین و آخرین میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسے معراج کے موقع پر آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿سُبْحٰؔنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰؔى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍1) ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں سفر کرایا۔‘‘ قرآن کی تنزیل کے وقت بھی آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا: ﴿ تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْ٘فُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْ٘عٰلَمِیْنَ نَذِيْرًا﴾ (الفرقان : 25؍1) ’’نہایت برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ ’’جہنم کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ اور اس قسم کی دیگر آیات سے اہل سنت کے اس مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ جنت اور جہنم دونوں پیدا کی ہوئی ہیں۔ جبکہ معتزلہ اس بات کے قائل نہیں۔ اس آیت کریمہ سے اہل سنت کے اس عقیدے کی بھی تائید ہوتی ہے کہ گناہ گار اور کبائر کے مرتکب موحدین ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ جہنم کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ خوارج اور معتزلہ کے عقیدے کے مطابق اگر موحدین کے لیے جہنم میں دوام اور خلود ہوتا تو یہ صرف کفار کے لیے تیار نہ کی گئی ہو تی۔ نیز اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عذاب اپنے اسباب یعنی کفر اور مختلف گناہوں کے ارتکاب سے ثابت ہوتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [24]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF