Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
37
SuraName
تفسیر سورۂ صافات
SegmentID
1291
SegmentHeader
AyatText
{50 ـ 59} لمَّا ذَكَرَ تعالى نعيمَهم وتمام سُرورهم بالمآكل والمشارب والأزواج الحسانِ والمجالس الحسنةِ؛ ذَكَرَ تذاكُرَهم فيما بينَهم ومطَارَحَتَهم للأحاديث عن الأمور الماضيةِ وأنَّهم ما زالوا في المحادثة والتساؤل حتى أفضى ذلك بهم إلى أن قال قائلٌ منهم: {إنِّي كان لي قرينٌ}: في الدنيا ينكِرُ البعث ويلومُني على تصديقي به، ويقولُ لي: {أإنَّك لَمِنَ المصدِّقينَ. أإذا مِتْنا وكُنَّا تراباً وعِظاماً أإنَّا لَمَدينونَ}؛ أي: مجازَوْن بأعمالنا؟! أي: كيف تصدِّقُ بهذا الأمر البعيد، الذي في غاية الاستغراب، وهو أنَّنا إذا تَمَزَّقْنا فَصِرْنا تراباً وعظاماً أنَّنا نُبعث ونعادُ ثم نحاسبُ ونُجازى بأعمالنا؛ أي: يقول صاحب الجنة لإخوانه: هذه قصَّتي وهذا خبري أنا وقريني، ما زلتُ أنا مؤمناً مصدِّقاً، وهو ما زال مكذِّباً منكراً للبعث، حتى متنا، ثم بُعِثْنا، فوصلتُ أنا إلى ما تَرَوْن من النعيم الذي أخْبَرَتْنا به الرسل، وهو لا شكَّ أنَّه قد وَصَلَ إلى العذاب. فهل {أنتُم مُطَّلِعونَ}: لننظرَ إليه فنزدادَ غِبْطَةً وسروراً بما نحن فيه، ويكونَ ذلك رأي عين؟! والظاهرُ من حال أهل الجنة وسرورِ بعضِهِم ببعضٍ وموافقة بعضِهِم بعضاً أنَّهم أجابوه لما قال، وذهبوا تبعاً له للاطِّلاع على قرينه. {فاطَّلَع} فرأى قرينَه {في سواء الجحيم}؛ أي: في وسط العذاب وغمراتِهِ. والعذابُ قد أحاطَ به، فقال له لائماً على حالِهِ وشاكراً لله على نعمتِهِ أنْ نجَّاه من كيدِهِ: {تاللهِ إنْ كِدْتَ لَتُرْدينِ}؛ أي: تهلكني بسبب ما أدخلتَ عليَّ من الشُّبه بزعمك، {ولولا نعمةُ ربِّي}: على أن ثبتني على الإسلام {لكنتُ من المُحْضَرينَ}: في العذاب معك. {أفَما نحنُ بِمَيِّتينَ. إلاَّ مَوْتَتَنا الأولى وما نحنُ بِمُعَذَّبينَ}؟ أي: يقوله المؤمن مبتهجاً بنعمة الله على أهل الجنة بالخلودِ الدائم والسلامة من العذاب. استفهامٌ بمعنى الإثبات والتقرير. وقوله: {فأقبل بعضُهُم على بعضٍ يتساءلون}، وحَذَفَ المعمولَ، والمقامُ مقامُ لذَّةٍ وسرور، فدلَّ ذلك على أنهم يتساءلون بكلِّ ما يتلذَّذون بالتحدُّث به والمسائل التي وقع فيها النزاعُ والإشكالُ، ومن المعلوم أنَّ لَذَّةَ أهل العلم بالتساؤل عن العلم والبحث عنه فوق اللَّذَّاتِ الجاريةِ في أحاديث الدُّنيا؛ فلهم من هذا النوع النصيبُ الوافر، ويحصُلُ لهم من انكشافِ الحقائق العلميَّةِ في الجنة ما لا يمكنُ التعبيرُ عنه.
AyatMeaning
[59-50] اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں، کامل مسرتوں، ماکولات ومشروبات، خوبصورت بیویوں اور خوشنما مجالس کا ذکر کرنے کے بعد ان میں آپس کی بات چیت اور ایک دوسرے کو ماضی کے واقعات و احوال سنانے کا ذکر کیا، نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہیں گے حتیٰ کہ ان میں سے ایک شخص کہے گا: ﴿اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَ٘رِیْنٌ﴾ ’’دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا‘‘ جو قیامت کا منکر تھا اور مجھے اس بات پر ملامت کیا کرتا تھا کہ میں قیامت پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور ﴿یَّقُوْلُ ﴾ ’’وہ کہا کرتا تھا‘‘ مجھ سے ﴿ ءَاِنَّكَ لَ٘مِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ۠۰۰ءَاِذَا مِتْنَا وَؔكُنَّا تُرَابً٘ا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ ﴾ یعنی کیا ہمیں ہمارے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی؟ یعنی تم اس امر محال کی کیسے تصدیق کرتے ہو جو انتہائی تعجب خیز معاملہ ہے؟ جب ہم مرنے کے بعد بکھر جائیں گے، مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن جائیں گے، کیا اس وقت بھی ہمارا حساب کتاب ہو گا اور ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا؟ صاحب جنت اپنے برادران جنت سے کہے گا ’’یہ ہے میرا قصہ اور یہ ہے میرا اور میرے ساتھی کا معاملہ، میں ایمان پر قائم رہا اور روز قیامت کی تصدیق کرتا رہا اور وہ کفر وانکار پر جما رہا اور قیامت کو جھٹلاتا رہا، یہاں تک کہ موت نے ہمیں آ لیا، پھر اس کے بعد ہمیں زندہ کیا گیا، پھر ان نعمتوں تک پہنچا جو تم دیکھ رہے ہو جن کے بارے میں رسولوں نے خبر دی تھی اور مجھے اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ میرا ساتھی عذاب میں مبتلا ہے۔ ﴿هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ ﴾ ’’کیا تم اسے دیکھنا چاہتے ہو‘‘ تاکہ ہم اسے دیکھ لیں اور ہم جس نعمت و سرور میں ہیں اس میں اضافہ ہو اور یہ آنکھوں دیکھی حقیقت بن جائے۔ اہل جنت کے احوال، ان کے ایک دوسرے سے خوش ہونے اور ایک دوسرے کی موافقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کر لیں گے اور وہ اس کے ساتھ اس کے کافر ہم نشین کا حال دیکھنے جا ئیں گے۔ ﴿فَاطَّ٘لَ٘عَ ﴾ یعنی وہ اپنے ساتھی اور ہم نشین کو دیکھے گا ﴿فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ ﴾ جہنم کے عین وسط میں اور عذاب نے اس کو گھیر رکھا ہو گا۔ ﴿قَالَ ﴾ یعنی یہ صاحب جنت اس کافر ہم نشین کو ملامت اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے کہ اس نے اسے اس کافر کے فریب سے بچایا… کہے گا: ﴿تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَـتُرْدِیْنِ﴾ اللہ کی قسم! تو نے تو مجھے اپنے مزعومہ شبہات کا شکار کر کے ہلاک ہی کر ڈالا تھا۔ ﴿وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّیْ ﴾ ’’اور اگر میرے رب نے اسلام پر ثابت قدمی کی نعمت سے نہ نوازا ہوتا ﴿لَكُنْتُ مِنَ الْ٘مُحْضَرِیْنَ ﴾ ’’تو میں بھی (تمھارے ساتھ عذاب میں) حاضر کیے گئے لوگوں میں سے ہوتا۔‘‘ ﴿اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَۙ۰۰ اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ﴾ ’’کیا ہم (آئندہ بھی) نہیں مریں گے؟ ہاں (جو) پہلی بار مرنا تھا (سو ہم مرچکے) اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا۔‘‘ یعنی مومن اس کافر سے نعمت کے بارے میں جو خلود جنت اور جہنم کے عذاب سے نجات کی صورت میں حاصل ہوئی ہے، پوچھے گا۔ یہ استفہام اثبات اور تقریر کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ ﴾ میں معمول کا حذف ہونا اور مقام کا مقام لذت و سرور ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے جس کے ذکر سے انھیں لذت حاصل ہوتی ہے اور ان مسائل کے بارے میں سوال کریں گے جس میں نزاع اور اشکال واقع ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل علم کو علمی مسائل میں ایک دوسرے سے سوال کر کے تحقیق و بحث کے ذریعے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے، وہ اس لذت پر فوقیت رکھتی ہے جو دنیاوی باتوں سے حاصل ہوتی ہے، اس لیے ان کو بحث و تحقیق کے ان مسائل سے بہرۂ و افر نصیب ہو گا اور جنت میں ان پر ایسے ایسے حقائق کا انکشاف ہو گا جن کی تعبیر ممکن نہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[59-
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List