Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 36
- SuraName
- تفسیر سورۂ یٰسٓ
- SegmentID
- 1276
- SegmentHeader
- AyatText
- {42} {وخَلَقْنا لهم}؛ أي: للموجودين من بعدِهم {من مثلِهِ}؛ أي: من مثل ذلك الفلك؛ أي: جنسه {ما يَرْكَبونَ}: به. فذكر نعمتَه على الآباء بِحَمْلِهِم في السفن؛ لأنَّ النعمة عليهم نعمةٌ على الذُّرِّيَّة. وهذا الموضعُ من أشكل المواضع عليَّ في التفسير؛ فإنَّ ما ذَكَرَه كثيرٌ من المفسِّرين من أنَّ المرادَ بالذُّرِّيَّةِ الآباء مما لا يُعْهَدُ في القرآن إطلاقُ الذُّرِّيَّةِ على الآباء، بل فيه من الإبهام وإخراج الكلام عن موضوعِهِ ما يأباه كلامُ ربِّ العالمين وإرادتُه البيانَ والتوضيحَ لعبادِهِ. وثَمَّ احتمالٌ أحسنُ من هذا، وهو أنَّ المرادَ بالذُّرِّيَّةِ الجنسُ، وأنَّهم هم بأنفسهم؛ لأنَّهم هم من ذُرِّيَّةِ بني آدم، ولكن يَنْقُضُ هذا المعنى قوله: {وخَلَقْنا لهم من مثلِهِ ما يَرْكَبون}: إنْ أريدَ: وخَلَقْنا من مثل ذلك الفُلْك؛ أي: لهؤلاء المخاطبين ما يركبونَ من أنواع الفُلْك، فيكونُ ذلك تكريراً للمعنى تأباه فصاحةُ القرآن. فإنْ أريدَ بقوله: {وخَلَقْنا لهم من مثلِهِ ما يركبونَ}: الإبل التي هي سُفُن البرِّ؛ استقامَ المعنى واتَّضح؛ إلاَّ أنَّه يبقى أيضاً أن يكون الكلامُ فيه تشويشٌ؛ فإنَّه لو أُريد هذا المعنى؛ لقال: وآيةٌ لهم أنَّا حَمَلْناهم في الفُلْكِ المَشْحونِ وخَلَقْنا لهم من مثلِهِ ما يركبونَ، فأمَّا أنْ يُقالَ في الأول: حملنا ذريتهم، وفي الثاني: حملناهم؛ فإنَّه لا يظهرُ المعنى إلاَّ أنْ يقالَ: الضميرُ عائدٌ إلى الذُّرِّيَّةِ. والله أعلم بحقيقةِ الحال. فلمَّا وصلتُ في الكتابة إلى هذا الموضع؛ ظهر لي معنى ليس ببعيدٍ من مرادِ الله تعالى، وذلك أنَّ مَنْ عَرَفَ جلالة كتابِ الله وبيانَه التامَّ من كلِّ وجهٍ للأمور الحاضرة والماضية والمستقبلةِ، وأنَّه يَذْكُرُ من كلِّ معنى أعلاه وأكمل ما يكون من أحوالِهِ، وكانت الفُلْكُ من آياته تعالى ونعمِهِ على عباده من حين أنعم عليهم بتعلُّمها إلى يوم القيامةِ، ولم تزلْ موجودةً في كلِّ زمان إلى زمانِ المواجَهين بالقرآن، فلمَّا خاطبهم الله تعالى بالقرآن، وذَكَرَ حالةَ الفُلك، وعَلِمَ تَعالى أنَّه سيكونُ أعظمُ آياتِ الفلكِ في غير وقتهم وفي غير زمانهم حين يُعَلِّمُهُم صنعةَ الفُلك البحريَّة الشراعيَّة منها والنّارية والجويَّة السابحة في الجوِّ كالطيور ونحوها والمراكبِ البريَّة ممَّا كانت الآيةُ العظمى فيه لم توجَدُ إلاَّ في الذُّرِّيَّةِ؛ نبَّه في الكتاب على أعلى نوع من أنواع آياتها، فقال: {وآيةٌ لهم أنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ في الفُلْكِ المشحونِ}؛ أي: المملوء ركباناً وأمتعةً، فحملهم الله تعالى، ونجَّاهم بالأسباب التي علَّمهم اللهُ بها من الغرق.
- AyatMeaning
- [42] ﴿وَخَلَقْنَا لَهُمْ ﴾ ’’اور ہم نے ان کے لیے پیدا کیں۔‘‘ یعنی موجود اور آنے والے لوگوں کے لیے ﴿مِّنْ مِّؔثْلِهٖ٘﴾ ’’ویسی ہی‘‘ یعنی اس کشتی جیسی یعنی اس کی جنس میں سے ﴿مَا یَرْؔكَبُوْنَ ﴾ ’’جس پر یہ سواری کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے آباء و اجداد پر اپنی نعمت کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو کشتی میں سوار کرایا۔ ان پر نعمت کا فیضان گویا اولاد پر نعمت کا فیضان ہے۔ تفسیر کے اعتبار سے یہ مقام میرے لیے مشکل ترین مقام ہے کیونکہ بہت سے مفسرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ’’ذریت‘‘ سے مراد آباء و اجداد ہیں، مگر قرآن کریم میں ذریت کا آباء و اجداد پر اطلاق کہیں نہیں آتا… بلکہ اگر اس کو ان معنوں میں لیا جائے تو اس میں ابہام اور کلام کو اصل موضوع کے دائرے سے خارج کرنا ہے جس سے رب العالمین کا کلام انکار کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اپنے بندوں کے سامنے ایضاح و بیان ہے۔ یہاں ایک اور احتمال بھی ہے جو اس سے بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ’’ذریت‘‘ سے مراد جنس ہے یعنی اس سے مراد وہ خود ہیں کیونکہ وہی آدم کی ذریت ہیں، مگر یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متناقض ہے۔ ﴿وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّؔثْلِهٖ٘ مَا یَرْؔكَبُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے لیے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوجاتے ہیں۔‘‘ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے اس کشتی جیسی کشتی تخلیق کی۔ یعنی ان مخاطبین کے لیے جو مختلف انواع کی کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں… تو یہ معنی کا تکرار ہے، قرآن کریم کی فصاحت اس سے انکار کرتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّؔثْلِهٖ٘ مَا یَرْؔكَبُوْنَ ﴾ سے اونٹ مراد لیے جائیں جو صحرا کے جہاز ہیں تو معنی نہایت درست اور واضح ہے… البتہ اس معنی کے مطابق بھی کلام میں تشویش باقی رہ جاتی ہے کیونکہ اگر یہ معنی مراد ہوتا تو اللہ یوں ارشاد فرماتا: (وَاٰیَۃٌ لَّھَم اَنَّا حَمَلْنَا ھُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونَ وَخَلَقْنَا لَھُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُونَ ) ’’اور ان کے لیے نشانی ہے کہ ہم نے انھیں بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ان کے لیے اسی جیسی دوسری چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔‘‘ رہا پہلی آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا اور دوسری آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے انھیں سوار کیا، تو اس سے معنی واضح نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے یہ کہا جائے کہ ضمیر (ذریۃ) کی طرف لوٹتی ہو اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ جب میں یہاں تک لکھ چکا تو مجھ پر ایک معنی ظاہر ہوا جو اللہ تعالیٰ کی مراد سے بعید نہیں، جو کوئی کتاب اللہ کے جلال اور ہر لحاظ سے حال، ماضی اور مستقبل کے امور کے لیے اس کے بیان کامل کی معرفت رکھتا ہے، نیز وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ وہ معنی ذکر کرتا ہے جو اپنے احوال میں کامل ترین معنی ہوں۔ کشتی اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور اس کے بندوں کے لیے اس کی نعمت ہے… جب سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کشتی کی نعمت اور اس کی تعلیم سے نوازا ہے اس وقت سے لے کر روز قیامت اور قرآن کے مخاطبین کے زمانے تک، ہر زمانے میں کشتی موجود رہی ہے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو قرآن کے ذریعے سے مخاطب کیا اور کشتی کا حال بیان کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان مخاطبین کے زمانے کے بعد ایسی ایسی کشتیاں ایجاد ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ ان کو بحری، بادبانی اور بھاپ سے چلنے والی، فضا میں پرندوں کی مانند تیرنے والی کشتیوں اور خشکی پر چلنے والی سواریوں کی صنعت کی تعلیم دے گا اور یہ عظیم نشانی صرف ان کی ذریت کے زمانے ہی میں پائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب کریم میں اپنی نشانیوں کی تمام انواع میں سے، اعلیٰ ترین نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ﴾ ’’اور ان کے لیے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔‘‘ یعنی سواریوں اور سامان سے بھری ہوئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سواریوں پر سوار کرایا اور ان اسباب کے ذریعے سے ان کو ڈوبنے سے بچایا جو اس نے انھیں سکھائے تھے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [42]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF