Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
152
SegmentHeader
AyatText
{283} {فرهان مقبوضة}؛ أنه إذا اختلف الراهن والمرتهن في مقدار الدين الذي به الرهن أن القول قول المرتهن صاحب الحق لأن الله جعل الرهن وثيقة به فلولا أنه يقبل قوله في ذلك لم تحصل به الوثيقة لعدم الكتابة والشهود. ومنها: أنه يجوز التعامل بغير وثيقة ولا شهود لقوله: {فإن أمن بعضكم بعضاً فليؤد الذي ائتمن أمانته}؛ ولكن في هذه الحال يحتاج إلى التقوى والخوف من الله وإلا فصاحب الحق مخاطر في حقه ولهذا أمر الله في هذه الحال من عليه الحق أن يتقي الله ويؤدي أمانته. ومنها: أن من ائتمنه معاملة فقد عمل معه معروفاً عظيماً ورضي بدينه وأمانته فيتأكد على من عليه الحق أداء الأمانة من الجهتين: أداء لحق الله وامتثالاً لأمره، ووفاء بحق صاحبه الذي رضي بأمانته ووثق به. ومنها: تحريم كتم الشهادة وأن كاتمها قد أثم قلبه الذي هو ملك الأعضاء، وذلك لأن كتمها كالشهادة بالباطل والزور فيها ضياع الحقوق وفساد المعاملات والإثم المتكرر في حقه وحق من عليه الحق. وأما تقييد الرهن بالسفر مع أنه يجوز حضراً وسفراً فللحاجة إليه لعدم الكاتب والشهيد. وختم الآية بأنه عليم بكل ما يعمله العباد كالترغيب لهم في المعاملات الحسنة والترهيب من المعاملات السيئة.
AyatMeaning
[283] آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم سفر میں ہو، ﴿ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا ﴾ ’’اور تمھیں کاتب نہ ملے‘‘ جو تمھارے لیے تحریر لکھ دے، جس سے بات پکی اور قابل اعتماد ہوجائے ﴿ فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ ﴾ ’’تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔‘‘ صاحب حق (قرض خواہ) اسے قبضہ میں رکھے، اور یہ اس کے اطمینان کا باعث (اور ضمانت کے طورپر) رہے حتیٰ کہ اس کا حق (قرض) اسے واپس مل جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر رہن (گروی رکھی ہوئی چیز) پر قرض خواہ کا قبضہ نہ ہو تو اس سے ضمانت نہیں بنتی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر راہن (رہن والی چیز کا مالک) اور مرتہن (رہن رکھ کر قرض دینے والا) رہن شدہ چیز کی مقدار میں اختلاف کریں تو مرتہن کا قول قبول کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرض خواہ کے اعتبار کے لے رہن کو تحریر کا قائم مقام بنا دیا ہے۔ اگر رہن شدہ چیز کی قیمت کے بارے میں مرتہن کی بات نہ مانی جائے تو رہن کا مقصود (اعتماد اور اطمینان) حاصل نہیں ہوگا۔ کیونکہ رہن کا مقصد اعتماد و اعتبار ہے، اس لیے یہ سفر اور حضر (دونوں صورتوں) میں جائز ہے۔ آیت میں سفر کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کی ضرورت سفر میں زیادہ پیش آسکتی ہے کیونکہ سفر میں ہوسکتا ہے کاتب میسر نہ ہو۔ یہ حکم تب ہے کہ جب صاحب حق (قرض خواہ) اپنے حق (قرض) کے بارے میں تسلی کرنا چاہتا ہے۔ اگر صاحب حق کو مقروض سے کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ بغیر رہن کے معاملہ کرنا چاہے تو مقروض کو چاہیے کہ قرض پورا پورا ادا کرے۔ نہ ظلم کرے نہ اس کی حق تلفی کرے ﴿وَلْ٘یَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔‘‘ حق ادا کرے۔ اور جس نے اس کے بارے میں حسن ظن رکھا۔ اس کی نیکی کا اچھا بدلہ دے۔ ﴿ وَلَا تَكْ٘تُمُوا الشَّهَادَةَ ﴾ ’’اور گواہی کو مت چھپاؤ۔‘‘ کیونکہ حق کا دارومدار گواہی پر ہے۔ اس کے بغیر حق ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسے چھپانا عظیم ترین گناہ ہے۔ کیونکہ اس نے سچی بات بتانے کا فریضہ ترک کرکے جھوٹ بولا۔ جس کے نتیجے میں حق والے کا حق مارا گیا، اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَؔ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور جو کوئی اسے چھپالے، وہ گناہ گار دل والا ہے۔ اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘ اللہ نے ا پنے بندوں کو یہ جو عمدہ مسائل بتائے ہیں ان میں بہت سی حکمتیں اور عام فوائد موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر بندے اللہ کی ہدایات پر عمل کریں تو ان کا دین درست ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھی سنور جائے۔ کیونکہ ان میں انصاف، فائدہ، حقوق کی حفاظت اور لڑائی جھگڑے کا خاتمہ، اور معاشی معاملات کی درستی پائی جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے جیسے اس کے چہرہ اقدس کے جلال اور عظیم سلطنت کے لائق ہے۔ ہم اس کی کماحقہ تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[283
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List