Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
34
SuraName
تفسیر سورۂ سبا
SegmentID
1248
SegmentHeader
AyatText
{43} يخبر تعالى عن حالةِ المشركين عندما تُتلى عليهم آياتُ اللَّه البيناتُ وحججُه الظاهراتُ وبراهينُه القاطعاتُ، الدالةُ على كل خير، الناهيةُ عن كلِّ شرٍّ، التي هي أعظمُ نعمةٍ جاءتهم ومنَّةٍ وصلتْ إليهم، الموجبة لمقابلتها بالإيمان والتصديق والانقياد والتسليم، أنَّهم يقابِلونَها بضدِّ ما ينبغي ويكذِّبونَ مَنْ جاءهم بها ويقولونَ: {ما هذا إلاَّ رجلٌ يريدُ أن يَصُدَّكُم عما كان يعبدُ آباؤُكم}؛ أي: هذا قصدُه حين يأمُرُكم بالإخلاص لله لتتركوا عوائدَ آبائِكُم الذين تعظِّمون وتمشون خلفَهم، فردُّوا الحقَّ بقول الضالِّين، ولم يوردوا برهاناً ولا شبهةً؛ فأيُّ شبهة إذا أمرتِ الرسلُ بعضَ الضالِّين باتِّباع الحقِّ فادَّعَوْا أنَّ إخوانهم الذين على طريقتهم لم يزالوا عليه؟! وهذه السفاهة وردُّ الحقِّ بأقوال الضالين إذا تأملتَ كلَّ حقٍّ رُدَّ؛ فإذا هذا مآلُه، لا يُرَدُّ إلاَّ بأقوال الضالِّين من المشركين والدَّهريين والفلاسفة والصابئين والملحدين في دين الله المارقين؛ فهم أسوةُ كلِّ من رَدَّ الحقَّ إلى يوم القيامةِ. ولمَّا احتجُّوا بفعل آبائِهِم وجعلوها دافعةً لما جاءت به الرسل؛ طعنوا بعد هذا بالحقِّ، {وقالوا ما هذا إلا إفكٌ مفترىً}؛ أي: كذبٌ افتراه هذا الرجلُ الذي جاء به، {وقال الذينَ كفروا للحقِّ لمَّا جاءهم إنْ هذا إلاَّ سحرٌ مبينٌ}؛ أي: سحرٌ ظاهرٌ بيِّنٌ لكلِّ أحدٍ؛ تكذيباً بالحقِّ وترويجاً على السفهاء.
AyatMeaning
[43] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس وقت مشرکین کی کیا حالت ہوتی تھی جب ان کے سامنے واضح آیات تلاوت کی جاتی تھیں اور ایسے قطعی براہین و دلائل پیش کیے جاتے تھے جو ہر بھلائی پر دلالت کرتے اور ہر برائی سے روکتے تھے، یہ آیات اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی عنایت تھی جو ان کے دروازے تک پہنچی اور اس بات کی موجب تھی کہ ایمان و تصدیق اور اطاعت و تسلیم کے ساتھ اس کو قبول کیا جاتا۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ انھوں نے اس مناسب رویے سے متضاد رویے کے ساتھ ان کا سامنا کیا۔ وہ ان انبیاء کی تکذیب کیاکرتے تھے جو ان کے پاس آئے تھے اور کہا کرتے تھے: ﴿مَا هٰؔذَاۤ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیْدُ اَنْ یَّصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُكُمْ ﴾ ’’یہ ایک ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ جن چیزوں کی تمھارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ان سے تم کو رو ک دے۔‘‘ یعنی جب وہ تمھیں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کا حکم دیا کرتا تھا تو اس وقت اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ تم اپنے باپ دادا کی عادات کو ترک کر دو، جن کی تم تعظیم اور ان کی پیروی کرتے ہو۔ پس انھوں نے گمراہوں کے کہنے پر حق کو ٹھکرا دیا اور اس کو ٹھکراتے وقت انھوں نے کوئی دلیل اور برہان پیش کی نہ کوئی شبہ وارد کیا اور یہ کون سا شبہ ہے کہ جب رسول بعض گمراہ لوگوں کو اتباع حق کی دعوت دیں تو یہ لوگ دعویٰ کریں کہ گزشتہ زمانے میں ان کے بھائی بند بھی، جن کے یہ پیروکار ہیں، اسی طریقہ پر کاربند تھے۔ اگر آپ ان کی اس سفاہت، حماقت اور گمراہ لوگوں کے کہنے کی وجہ سے ان کے حق کو ٹھکرانے پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی حماقت کے ڈانڈے مشرکوں، دہریوں، فلسفیوں، صابیوں، ملحدوں اور اللہ تعالیٰ کے دین سے نکل بھاگنے والوں کے گمراہ نظریات سے جا ملتے ہیں۔ قیامت تک ہر شخص کے لیے یہی اسوہ رہے گا جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ انھوں نے اپنے آباء و اجداد کے افعال کو دلیل بنا کر انبیاء و مرسلین کی دعوت کو ٹھکرایا اور اس کے بعد حق کو مطعون کیا ﴿وَقَالُوْا مَا هٰؔذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكٌ مُّفْتَرًى ﴾ ’’اور انھوں نے کہا کہ یہ قرآن صرف اور صرف گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔‘‘ یعنی یہ اس شخص کا گھڑا ہوا جھوٹ ہے جو اسے لے کر آیا ہے ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ١ۙ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’اور ان کافروں کے پاس جب حق آگیا تو انھوں نے کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے۔‘‘ یعنی یہ کھلا جادو ہے جو ہر ایک پر ظاہر ہے۔ وہ یہ بات حق کی تکذیب اور بے عقل لوگوں کو فریب میں مبتلا کرنے کے لیے کہتے تھے۔
Vocabulary
AyatSummary
[43]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List