Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 34
- SuraName
- تفسیر سورۂ سبا
- SegmentID
- 1241
- SegmentHeader
- AyatText
- {15 ـ 19} سبأ قبيلةٌ معروفةٌ في أداني اليمن، ومسكنُهم بلدةٌ يُقالُ لها: مأرِب، ومن نعم الله ولطفِهِ بالناس عموماً وبالعرب خصوصاً أنه قصَّ في القرآن أخبار المهلكين والمعاقَبين ممَّنْ كان يجاوِرُ العرب، ويشاهدُ آثاره، ويتناقلُ الناس أخبارَه؛ ليكونَ ذلك أدعى إلى التصديق وأقربَ للموعظة، فقال: {لقد كان لسبأٍ في مسكنِهِم}؛ أي: محلِّهم الذي يسكنون فيه {آيةٌ}: والآيةُ هنا ما أدرَّ الله عليهم من النعم، وصرف عنهم من النقم، الذي يقتضي ذلك منهم أن يَعْبُدوا الله ويشكُروه. ثم فسَّرَ الآية بقوله: {جنَّتانِ عن يمينٍ وشمال}: وكان لهم وادٍ عظيمٌ تأتيه سيولٌ كثيرةٌ، وكانوا بنوا سدًّا محكماً يكون مجمعاً للماء، فكانت السيول تأتيه، فيجتمع هناك ماءٌ عظيمٌ، فيفرِّقونَه على بساتينهم التي عن يمين ذلك الوادي وشماله، وتُغِلُّ لهم تلك الجنتان العظيمتان من الثمار ما يكفيهم ويَحْصُلُ لهم به الغبطةُ والسرورُ، فأمرهم الله بشكرِ نِعَمِهِ التي أدرَّها عليهم من وجوه كثيرة: منها: هاتان الجنَّتان اللتان غالب أقواتهم منهما. ومنها: أنَّ الله جعل بَلَدَهُم بلدةً طيبةً لحسن هوائها وقلَّة وَخَمِها وحصول الرزق الرغد فيها. ومنها: أنَّ الله تعالى وَعَدَهم إن شكروه أن يغفرَ لهم ويرحَمَهم، ولهذا قال: {بلدةٌ طيبةٌ وربٌّ غفورٌ}. ومنها: أنَّ الله لما علم احتياجَهم في تجاراتِهِم ومكاسِبِهم إلى الأرض المباركة ـ الظاهرُ أنَّها قُرى صنعاء كما قاله غيرُ واحدٍ من السلف، وقيل: إنَّها الشامُ ـ؛ هيَّأ لهم من الأسباب ما به يتيسَّر وصولُهم إليها بغايةِ السُّهولة من الأمن وعدم الخوف وتواصُل القرى بينهم وبينها؛ بحيثُ لا يكون عليهم مشقَّةٌ بحمل الزاد والمزاد، ولهذا قال: {وجعلنا بينهم وبين القرى التي بارَكْنا فيها قرىً ظاهرةً وقدَّرْنا فيها السيرَ}؛ أي: سيراً مقدراً يعرفونه ويحكمونَ عليه بحيث لا يتيهونَ عنه ليالي وأياماً. {آمنينَ}؛ أي: مطمئنين في السير في تلك الليالي والأيام غير خائفينَ، وهذا من تمام نعمةِ الله عليهم أنْ أمَّنَهم من الخوف. فأعْرَضوا عن المنعِم وعن عبادتِهِ، وبَطِروا النعمةَ وملُّوها، حتى إنَّهم طلبوا وتمنَّوا أن تتباعد أسفارُهم بين تلك القرى التي كان السير فيها متيسراً. {وظلموا أنْفُسَهم}: بكفرِهِم بالله وبنعمتِهِ، فعاقَبَهُمُ الله تعالى بهذه النعمة التي أطْغَتْهم، فأبادها عليهم، فأرسل عليها {سيلَ العَرِم}؛ أي: السيل المتوعِّر الذي خَرَّبَ سدَّهم، وأتلف جناتهم، وخرَّبَ بساتينَهم، فتبدَّلت تلك الجناتُ ذات الحدائق المعجِبَة والأشجار المثمرة، وصار بَدَلَها أشجارٌ لا نفعَ فيها. ولهذا قال: {وبدَّلْناهم بجنَّتَيْهم جنتينِ ذواتي أكُل}؛ أي: شيءٍ قليل من الأكل الذي لا يقع منهم موقعاً، {خَمْطٍ وأثْلٍ وشيءٍ من سدرٍ قليل}: وهذا كله شجرٌ معروفٌ، وهذا من جنس عملهم؛ فكما بدَّلوا الشكر الحسن بالكفر القبيح؛ بُدِّلُوا تلك النعمة بما ذكر. ولهذا قال: {ذلك جَزَيْناهم بما كفروا وهل نُجازي إلاَّ الكفورَ}؛ أي: وهل نُجازي جزاء العقوبة ـ بدليل السياق ـ إلاَّ مَنْ كَفَرَ بالله وبَطِرَ النعمة؟! فلمَّا أصابَهم ما أصابَهم؛ تفرَّقوا وتمزَّقوا بعدما كانوا مجتمعينَ، وجَعَلَهُمُ الله أحاديثَ يُتَحَدَّث بهم وأسماراً للناس، وكان يُضْرَبُ بهم المثلُ، فيقالُ: «تفرَّقوا أيدي سبأ»؛ فكلُّ أحدٍ يتحدَّث بما جرى لهم، ولكنْ لا ينتفعُ بالعبرة فيهم إلاَّ مَنْ قال الله: {إنَّ في ذلك لآياتٍ لكلِّ صبارٍ شكورٍ}: صبَّارٍ على المكاره والشدائدِ، يتحمَّلُها لوجه الله، ولا يتسخَّطُها، بل يصبرُ عليها، شكورٍ لنعمة الله تعالى، يُقِرُّ بها، ويعترفُ، ويثني على من أولاها، ويصرِفُها في طاعته. فهذا إذا سمع بقصَّتِهم وما جرى منهم وعليهم؛ عَرَفَ بذلك أنَّ تلك العقوبة جزاءٌ لكفرِهم نعمةَ الله، وأنَّ مَنْ فَعَلَ مثلهم؛ فُعِلَ به كما فُعِلَ بهم، وأنَّ شُكْرَ الله تعالى حافظٌ للنعمة دافعٌ للنقمة، وأنَّ رُسُلَ الله صادقون فيما أخبروا به، وأنَّ الجزاء حقٌّ كما رأى أنموذَجَه في دار الدنيا.
- AyatMeaning
- [19-15] ’’سبا‘‘ ایک معروف قبیلہ تھا جو یمن کے قریب ترین علاقوں میں آباد تھا وہ ایک شہر میں آباد تھے جسے ’’مَأرِب‘‘ کہا جاتا تھا۔ تمام بندوں پر عموما اور عربوں پر خصوصاً اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اس کی بے پایاں نعمتیں ہیں کہ اس نے قرآن مجید میں ان ہلاک شدہ قوموں کے بارے میں خبر دی ہے جن پر عذاب نازل کیا گیا، جو ان کے پڑوس میں آباد تھیں، جہاں ان کے آثار کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور لوگ ان کے واقعات کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں تاکہ اس طرح ان کے واقعات کے ذریعے سے قرآن کی تصدیق ہو اور یہ چیز نصیحت کے قریب تر ہو۔ ﴿لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ ﴾ ’’سبا کے لیے ان کے مسکنوں میں‘‘ یعنی ان کے مساکن جہاں وہ آباد تھے ﴿اٰیَةٌ ﴾ ’’ایک نشانی ‘‘ اور وہ نشانی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا اور بہت سی تکالیف کو ان سے دور کیا اور یہ چیز اس بات کی مقتضی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا شکر ادا کرتے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نشانی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿جَنَّتٰ٘نِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ ﴾ ’’ان کے دائیں بائیں دو باغات تھے۔‘‘ ان کے پاس ایک وادی تھی جہاں بہت کثرت سے سیلاب آتے تھے انھوں نے اس پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بہت مضبوط بند تعمیر کیا۔ چنانچہ سیلاب کا پانی آکر اس وادی میں جمع ہو جاتا ، پھر وہ اس وادی کے دائیں بائیں لگائے ہوئے اپنے باغات کو اس پانی سے سیراب کرتے ۔یہ دو عظیم باغ ان کے لیے اتنا پھل پیدا کرتے جو ان کی معیشت کے لیے کافی ہوتا۔ اس سے انھیں بہت مسرت حاصل ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کئی پہلوؤ ں سے اپنی ان بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا: (۱) یہ دونوں باغ ان کو ان کی خوراک کا بہت بڑا حصہ فراہم کرتے تھے۔ (۲) اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے علاقے کو، اس کی نہایت خوشگوار آب و ہوا، اس کے مضر صحت نہ ہونے اور رزق کے ذرائع کی فراوانی کی بنا پر، بہت خوبصورت بنایا۔ (۳) اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ ﴾ ’’پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب ہے۔‘‘ (۴) اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اپنی تجارت اور اپنے مکاسب میں ارض مبارک کے محتاج ہیں... سلف میں سے ایک سے زائد اہل علم کے مطابق ارض مبارک سے ’’صنعاء‘‘ کی بستیاں مراد ہیں اور بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ارض شام ہے... تو ان کو ایسے ذرائع اور اسباب مہیا کر دیے جن کے ذریعے سے ان بستیوں تک پہنچنا ان کے لیے انتہائی آسان ہو گیا، انھیں دوران سفر امن اور عدم خوف حاصل ہوا، ان کے درمیان اور ارض مبارک کے درمیان بستیاں اور آبادیاں تھیں، بنا بریں انھیں زادراہ کا بوجھ اٹھانے کی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَجَعَلْنَا بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ الْ٘قُ٘رَى الَّتِیْ بٰرَؔكْنَا فِیْهَا قُ٘رًى ظَاهِرَةً وَّقَدَّرْنَا فِیْهَا السَّیْرَ ﴾ ’’اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی، دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمد و رفت کا اندازہ مقرر کر دیا تھا۔‘‘ یعنی ایک مقرر راستہ جسے وہ پہچانتے تھے اسی پر چلتے تھے اور یہ راستہ چھوڑ کر ادھر ادھر نہ ہوتے تھے۔ ﴿لَیَالِیَ وَاَیَّ٘امًا اٰمِنِیْنَ ﴾ یعنی وہ ان میں راتوں اور دنوں کو نہایت اطمینان کے ساتھ، کسی خوف کے بغیر سفر کرتے تھے۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی کامل نعمت تھی کہ اس نے ان کو خوف سے مامون رکھا۔ پس انھوں نے نعمتیں عطا کرنے والے منعم حقیقی اور اس کی عبادت سے منہ موڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت پر اترانے لگے اور اس سے اکتا گئے۔ یہاں تک کہ وہ تمنا کرنے لگے کہ ان کی بستیوں کے درمیان ان کا سفر، جو نہایت آسان تھا، کاش! وہ دور ہو جائے۔ ﴿وَظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کا انکار کر کے انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نعمت کے ذریعے سے، جس نے انھیں سرکش بنا دیا تھا، ان کو سزا دی کہ ان کے اس بند کو توڑ دینے والا منہ زور سیلاب بھیجا جس نے ان کے اس بند کو توڑ کر ان کے باغات کو تباہ کر دیا۔ ان کے پھل دار درختوں والے یہ باغات جھاڑ جھنکار میں بدل گئے، لہٰذا فرمایا: ﴿وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَیْهِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُكُ٘لٍ ﴾ ’’اور ان کو ان کے دو باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیے جن کے میوے‘‘ یعنی بہت تھوڑا پھل جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا تھا ﴿خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَیْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ ﴾ ’’بدمزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں۔‘‘ یہ سب معروف درخت ہیں، یہ سزا ان کے عمل کی جنس سے تھی یعنی جس طرح انھوں نے شکر حسن کو کفر قبیح میں بدل ڈالا اسی طرح ان کی یہ نعمتیں بدل دی گئیں، گزشتہ سطور میں جس کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْا١ؕ وَهَلْ نُجٰؔزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ﴾ ’’یہ ہم نے انھیں ان کی ناشکری کی سزا دی اور ہم ناشکرے ہی کو سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم جزا کے طور پر عذاب... جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے... اس شخص کے سوا کسی اور کو نہیں دیتے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ہو اور اس کی عطا کردہ نعمت پر اتراتا رہا ہو۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹ پڑا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئے اس سے پہلے وہ اکٹھے تھے، ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا لوگ ان کے بارے میں دن رات گفتگو کرتے ہیں، وہ پراگندگی میں ضرب المثل بن گئے اور ان کی مثال دی جانے لگی۔ ، چنانچہ کہا جاتا ہے: ( تَفَرَّقُوا أَیْدِي سَبَأ) ’’وہ ایسے بکھر گئے جیسے قوم سبا بکھر گئی تھی۔‘‘ ہر شخص ان کے قصے بیان کرتا تھا، مگر عبرت سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّ٘كُ٘لِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ﴾ ’’بلاشبہ اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار بندے کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ ناپسندیدہ امور اور سختیوں پر صبر کرنے والا، جو ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کرتا ہے، ان پر ناراضی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ ان پر صبر کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار اور اعتراف کر کے اس پر اس کا شکر اداکرتا ہے، منعم کی حمد وثنا بیان کرتا ہے اور اس نعمت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتا ہے۔ جب ان کا قصہ سنا جاتا ہے کہ ان کے کرتوت کیا تھے اور ان کے ساتھ کیا کیاگیا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کو یہ سزا اس بنا پر دی گئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناسپاسی کی تھی۔ نیز یہ اس پر بھی دلیل ہے کہ جو کوئی اس قسم کا رویہ اختیار کرے گا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ (۱) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ ’’شکر‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی حفاظت اور اس کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ (۲) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول اپنی خبر میں سچے ہیں۔ (۳) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ جزا حق ہے جیسا کہ اس کا نمونہ دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [19-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF