Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
147
SegmentHeader
AyatText
{269} لما ذكر أحوال المنفقين للأموال، وأن الله أعطاهم، ومنَّ عليهم بالأموال التي يدركون بها النفقات في الطرق الخيرية، وينالون بها المقامات السنية، ذكر ما هو أفضل من ذلك وهو أنه يعطي الحكمة من يشاء من عباده، ومن أراد بهم خيراً من خلقه، والحكمة هي العلوم النافعة والمعارف الصائبة والعقول المسددة والألباب الرزينة وإصابة الصواب في الأقوال والأفعال، وهذا أفضل العطايا وأجل الهبات، ولهذا قال: {ومن يؤت الحكمة فقد أوتي خيراً كثيراً}؛ لأنه خرج من ظلمة الجهالات إلى نور الهدى، ومن حمق الانحراف في الأقوال والأفعال إلى إصابة الصواب فيها وحصول السداد، ولأنه كمل نفسه بهذا الخير العظيم واستعد لنفع الخلق أعظم نفع في دينهم ودنياهم، وجميع الأمور لا تصلح إلا بالحكمة التي هي وضع الأشياء مواضعها وتنزيل الأمور منازلها، والإقدام في محل الإقدام، والإحجام في موضع الإحجام. ولكن ما يتذكر هذا الأمر العظيم وما يعرف قدر هذا العطاء الجسيم، {إلا أولو الألباب}؛ وهم أهل العقول الوافية والأحلام الكاملة، فهم الذين يعرفون النافع فيعملونه والضار فيتركونه، وهذان الأمران وهما بذل النفقات المالية وبذل الحكمة العلمية أفضل ما تقرب به المتقربون إلى الله وأعلى ما وصلوا به إلى أجل الكرامات، وهما اللذان ذكرهما النبي - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالاً فسلطه على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله الحكمة فهو يعلمها الناس».
AyatMeaning
[269] چونکہ اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم احکامات نازل فرمائے ہیں جن میں بہت سے اسرار اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ اور ان پر عمل کی توفیق ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ صرف اسی کو ملتی ہے جس پر اللہ کا خاص احسان ہو اور اسے اللہ حکمت عطا فرما دے۔ حکمت سے مراد علم نافع، عمل صالح، اور شریعت کے اسرار اور حکمتوں سے واقفیت ہے۔ جسے اللہ ایسی حکمت دے دے اسے اللہ نے بہت بھلائی عطا فرمادی۔ اس بھلائی سے عظیم تر بھلائی کون سی ہوسکتی ہے جس میں دنیا اور آخرت کی خوش نصیبی پنہاں ہو، اور جس کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی بدنصیبی سے نجات مل جائے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعمت خاص خاص لوگوں کو ملتی ہے اور یہ انبیاء کا ترکہ ہے۔ پس بندے کو کمال صرف حکمت سے حاصل ہوسکتاہے۔ کیونکہ کمال نام ہے علمی اور عملی قوت کے کامل ہونے کا۔ علمی قوت تو حق کی معرفت سے اور اس کے مقصود کی معرفت سے کامل ہوتی ہے۔ اور عملی قوت نیکی کرنے اور برائی سے اجتناب کرنے سے مکمل ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بندہ صحیح قول اور صحیح عمل کا حامل ہوسکتا ہے۔ اور اپنی ذات کے بارے میں، نیز دوسروں کے بارے میں ہر حکم کو اس کے صحیح مقام پر رکھ سکتا ہے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی فطرت میں یہ رکھ دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں، بھلائی سے محبت رکھیں ، حق کے طالب ہوں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے کہ لوگوں کو ان کی عقل و فطرت میں جڑیں رکھنے والی ان اشیاء کی یاد دہانی کرائیں اور جو تفصیلات لوگوں کو معلوم نہیں، وہ بیان فرمائیں۔ پھر لوگ دو قسموں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جنھوں نے انبیاء کی دعوت کو قبول کیا، تو انھیں اپنے فائدے کی باتیں یاد ہوگئیں، انھوں نے اس پر عمل کیا۔ اور انھیں اپنے نقصان کی باتیں معلوم ہوگئیں، لہٰذا وہ ان سے بچ گئے۔ یہ لوگ کامل عقل و فہم کے حامل ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنھوں نے انبیاء کی دعوت قبول نہیں کی، بلکہ ان کی فطرت میں جو خرابی پیدا ہوگئی تھی اسی کے مطابق عمل کیا، رب کا حکم نہیں مانا۔ یہ لوگ عقل والے نہیں۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَمَا یَذَّكَّـرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ ’’نصیحت صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
Vocabulary
AyatSummary
[269
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List