Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
33
SuraName
تفسیر سورۂ اَحزاب
SegmentID
1226
SegmentHeader
AyatText
{53} يأمر تعالى عبادَه المؤمنين بالتأدُّب مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في دخول بيوتِهِ، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تدخُلوا بيوت النبيِّ إلاَّ أن يُؤْذَنَ لكم إلى طعام}؛ أي: لا تدخُلوها بغير إذنٍ للدخول فيها لأجل الطعام، وأيضاً لا تكونوا {ناظرينَ إناه}؛ أي: منتظرين ومتأنين لانتظار نضجه أو سعة صدرٍ بعد الفراغ منه. والمعنى: أنكم لا تدخُلوا بيوتَ النبيِّ إلاَّ بشرطين: الإذن لكم بالدخول، وأنْ يكون جلوسُكم بمقدارِ الحاجة، ولهذا قال: {ولكنْ إذا دُعيتُم فادْخُلوا فإذا طَعِمْتُم فانتَشِروا ولا مُسْتَأنِسينَ لحديثٍ}؛ أي: قبل الطعام وبعده. ثم بيَّن حكمةَ النهي وفائدتَه، فقال: {إنَّ ذلكم}؛ أي: انتظاركم الزائد على الحاجة {كان يؤذي النبيَّ}؛ أي: يتكلَّف منه ويشقُّ عليه حبسُكم إيَّاه عن شؤون بيتِهِ وأشغاله فيه، {فيَسْتَحيي منكم}: أن يقولَ لكم: اخرُجوا! كما هو جاري العادة أن الناس ـ خصوصاً أهل الكرم منهم ـ يَسْتَحْيونَ أن يُخْرِجوا الناس من مساكنهم، {و} لكن {الله لا يَسْتَحْيي من الحقِّ}: فالأمر الشرعيُّ، ولو كان يُتَوَهَّم أنَّ في تركِهِ أدباً وحياءً؛ فإنَّ الحزم كلَّ الحزم اتِّباعُ الأمر الشرعيِّ، وأنْ يجزمَ أنَّ ما خالفه ليس من الأدب في شيءٍ، والله تعالى لا يستحيي أنْ يأمُرَكم بما فيه الخيرُ لكم والرفقُ لرسوله كائناً ما كان. فهذا أدبُهم في الدخول في بيوته، وأما أدبُهم معه في خطاب زوجاتِهِ؛ فإنَّه: إمَّا أن يحتاجَ إلى ذلك، أو لا يحتاجُ إليه؛ فإن لم يحتج إليه؛ فلا حاجة إليه، والأدب تركُه، وإن احتيج إليه، كأنْ يسألهنَّ متاعاً أو غيره من أواني البيت أو نحوها؛ فإنَّهنَّ يُسْألْنَ {من وراءِ حجابٍ}؛ أي: يكون بينكم وبينهنَّ سترٌ يستر عن النظر؛ لعدم الحاجة إليه، فصار النظر إليهنَّ ممنوعاً بكلِّ حال، وكلامهنَّ فيه التفصيلُ الذي ذكره الله. ثم ذكر حكمةَ ذلك بقوله: {ذلكُم أطهرُ لقلوبكم وقلوبهنَّ}؛ لأنَّه أبعدُ عن الريبة، وكلَّما بَعُدُ الإنسان عن الأسباب الداعيةِ إلى الشرِّ؛ فإنَّه أسلمُ له وأطهرُ لقلبِهِ؛ فلهذا من الأمور الشرعيَّة التي بيَّن الله كثيراً من تفاصيلها أنَّ جميعَ وسائل الشرِّ وأسبابه ومقدِّماته ممنوعةٌ، وأنه مشروعٌ البعد عنها بكلِّ طريق. ثم قال كلمةً جامعةً وقاعدةً عامةً: {وما كان لكم}: يا معشر المؤمنين؛ أي: غير لائقٍ ولا مستحسنٍ منكم، بل هو أقبحُ شيء، {أن تُؤذوا رسولَ الله}؛ أي: أذيَّة قوليَّة أو فعليَّة بجميع ما يتعلَّق به، {ولا أن تَنكِحوا أزواجَه من بعده أبداً}: هذا من جملة ما يؤذيه؛ فإنَّه - صلى الله عليه وسلم - له مقامُ التعظيم والرفعةِ والإكرام، وتزوُّجُ زوجاتِهِ بعدَه مخلٌّ بهذا المقام، وأيضاً؛ فإنهنَّ زوجاتُه في الدُّنيا والآخرة، والزوجيَّةُ باقيةٌ بعد موته؛ فلذلك لا يحلُّ نكاحُ زوجاتِهِ بعده لأحدٍ من أمته. {إنَّ ذلكم كان عند الله عظيماً}: وقد امتثلتْ هذه الأمة هذا الأمر، واجتنبتْ ما نهى الله عنه منه، ولله الحمد والشكر.
AyatMeaning
[53] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ e کے گھروں میں داخل ہوتے وقت آپ کے آداب کا خیال رکھا کریں، لہٰذا فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ ﴾ یعنی کھانے کے لیے داخلے کی اجازت کے بغیر نبی کر یمe کے گھر میں داخل نہ ہوا کرو اور نہ تم ﴿نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ ﴾ کھانا تیار ہونے اور اس کے پکنے کا انتظار کیا کرو اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لوٹنے میں تاخیر نہ کیا کرو۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تم دو شرائط کے ساتھ نبی اکرم e کے گھروں میں داخل ہوا کرو: (۱) داخل ہونے کی اجازت ملنے کے بعد۔ (۲) تمھارا آپ کے گھر میں بیٹھنا ضرورت کے مطابق ہو۔ اسی لیے فرمایا: ﴿وَلٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ۠ لِحَدِیْثٍ ﴾ ’’لیکن جب تمھیں دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔‘‘ یعنی کھانے سے پہلے یا بعد میں باتیں کرنے نہ لگ جاؤ ۔ پھر اس ممانعت کی حکمت اور فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اِنَّ ذٰلِكُمْ ﴾ یعنی ضرورت سے زیادہ تمھارا وہاں انتظار کرنا ﴿كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ ﴾ ’’نبی (e) کو تکلیف دیتا ہے‘‘ یعنی وہاں تمھارا بیٹھ کر آپ کو اپنے کام کاج اور دیگر معاملات سے روکے رکھنا، آپ پر شاق گزرتا ہے اس سے آپ e کو تکلیف ہوتی ہے۔ ﴿فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ ﴾ یعنی وہ شرم کی وجہ سے تمھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سے چلے جاؤ ۔ جیسا کہ عادت جاریہ ہے کہ لوگ... خاص طور پر شرفاء اور باوقار لوگ... لوگوں کو اپنے گھروں سے نکالتے ہوئے شرماتے ہیں ﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ لیکن ﴿اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔‘‘ شرعی معاملے میں اگر یہ تو ہم لاحق ہو کہ اس کے ترک کرنے میں ادب اور حیا ہے، تو کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ جو چیز شریعت کے خلاف ہے اس میں کوئی ادب نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ایسا حکم دینے سے نہیں شرماتا جس میں تمھارے لیے بھلائی اور رسول (e)کے لیے نرمی ہو خواہ یہ حکم کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تو تھے نبی اکرم e کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور رہے آپ کی ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب، تو اس میں دو امور ہیں کہ آیا ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کی کوئی حقیقی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟اگر بات چیت کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تو اس کو ترک کرنا ہی ادب ہے۔ اگر کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہے، جیسے ان سے کوئی چیز، مثلاً: گھر کے برتن وغیرہ طلب کرنا، تو یہ چیزیں ان سے طلب کی جائیں ﴿مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ﴾ ’’پردہ کے پیچھے سے۔‘‘ یعنی تمھارے درمیان اور ازواج مطہرات کے درمیان ایک پردہ حائل ہو، جو نظر پڑنے سے بچائے کیونکہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تو معلوم ہوا ازواج مطہرات کو دیکھنا ہر حال میں ممنوع ہے اور ان سے ہم کلام ہونے میں تفصیل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ﴾ ’’یہ تمھارے اور ان کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔‘‘ کیونکہ یہ طریقہ کسی قسم کے شبہے سے بعید تر ہے اور انسان شر کی طرف دعوت دینے والے اسباب سے جتنا دور رہے گا تو یہ چیز اس کے قلب کے لیے اتنی ہی زیادہ سلامتی اور پاکیزگی کا باعث ہو گی۔ بنا بریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام شرعی امور کی کثرت سے تفاصیل بیان کی ہیں، نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ برائی کے تمام وسائل، اسباب اور مقدمات ممنوع ہیں اور ہر طریقے سے ان سے دور رہنا مشروع ہے، پھر ایک جامع بات اور ایک عام قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿مَا كَانَ لَكُمْ ﴾ اے مومنو! تمھارے لائق ہے نہ یہ مستحسن ہے، بلکہ یہ قبیح ترین بات ہے ﴿اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ ﴾ ’’ کہ تم رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ ۔‘‘ یعنی قول و فعل اور ان سے متعلق تمام امور کے ذریعے سے اذیت پہنچاؤ۔ ﴿وَلَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا ﴾ ’’اور نہ (تمھارے لیے یہ حلال ہے کہ )آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔‘‘ یہ چیز ان جملہ امور میں داخل ہے جن سے آپ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بے شک آپe تعظیم اور رفعت و اکرام کے مقام کے حامل ہیں آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے نکاح کرنا، اس مقام کے منافی ہے، نیز ازواج مطہرات، دنیا وآخرت میں آپ کی بیویاں ہیں، زوجیت کا یہ رشتہ آپ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے اس لیے وہ آپ کی امت میں سے کسی کے لیے جائز نہیں۔ ﴿اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا ﴾ ’’یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ کا کام) ہے۔‘‘ امت مسلمہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روکا۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُوَالشُّکْرُ۔
Vocabulary
AyatSummary
[53]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List