Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
10
SegmentHeader
AyatText
{22} وأنعم عليكم بالنعم الظاهرة والباطنة، فجعل لكم الأرض فراشاً تستقرون عليها، وتنتفعون بالأبنية والزراعة والحراثة والسلوك من محل إلى محل، وغير ذلك من وجوه الانتفاع بها، وجعل السماء بناء لمسكنكم وأودع فيها من المنافع ما هو من ضروراتكم وحاجاتكم كالشمس والقمر والنجوم {وأنزل من السماء ماء}؛ والسماء هو: كل ما علا فوقك فهو سماء، ولهذا قال المفسرون: المراد بالسماء ههنا السحاب، فأنزل منه تعالى ماء {فأخرج به من الثمرات}؛ كالحبوب والثمار من نخيل وفواكه وزروع وغيرها {رزقاً لكم}؛ به ترتزقون وتتقوتون وتعيشون وتفكهون ، {فلا تجعلوا لله أنداداً}؛ أي: أشباهاً ونظراء من المخلوقين؛ فتعبدونهم كما تعبدون الله، وتحبونهم كما تحبونه ، وهم مِثْلكم مخلوقون مرزوقون مُدبَّرون، لا يملكون مثقال ذرة في الأرض، ولا في السماء ، ولا ينفعونكم ولا يضرون {وأنتم تعلمون}؛ أن الله ليس له شريك، ولا نظير لا في الخلق والرزق والتدبير، ولا في الألوهية والكمال ، فكيف تعبدون معه آلهة أخرى مع علمكم بذلك؟ هذا من أعجب العجب وأسفه السفه. وهذه الآية جمعت بين الأمر بعبادة الله وحده، والنهي عن عبادة ما سواه، وبيان الدليل الباهر على وجوب عبادته وبطلان عبادة ما سواه، وهو ذكر توحيد الربوبية المتضمن انفراده بالخلق والرزق والتدبير، فإذا كان كل أحد مقرًّا بأنه ليس له شريك بذلك فكذلك؛ فليكن الإقرار بأن الله ليس له شريك في عبادته ، وهذا أوضح دليل عقلي على وحدانية الباري تعالى وبطلان الشرك. وقوله: {لعلكم تتقون}؛ يحتمل أن المعنى أنكم إذا عبدتم الله وحده اتقيتم بذلك سخطه وعذابه؛ لأنكم أتيتم بالسبب الدافع لذلك، ويحتمل أن يكون المعنى أنكم إذا عبدتم الله صرتم من المتقين الموصوفين بالتقوى، وكلا المعنيين صحيح، وهما متلازمان، فمن أتى بالعبادة كاملة؛ كان من المتقين، ومن كان من المتقين؛ حصلت له النجاة من عذاب الله، وسخطه.
AyatMeaning
[22] اس نے تمھیں ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں۔ اس نے زمین کو تمھارے لیے فرش بنایا جہاں تم اپنا ٹھکانا بناتے ہو۔ جہاں تم عمارات تعمیر کر کے، زراعت اور کاشتکاری کر کے، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے مختلف فوائد حاصل کرتے ہو، اس کے علاوہ تم زمین کے بعض دیگر فوائد سے استفادہ کرتے ہو۔ اس نے تمھارے اس مسکن کے لیے آسمان کو چھت بنایا۔ اس نے تمھاری ضروریات اور حاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چھت میں بھی بہت سی نفع بخش چیزیں، مثلاً سورج، چاند اور ستارے پیدا کیے۔ ﴿وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً﴾ ’’اور اتارا اس نے آسمان سے پانی۔‘‘ ہر وہ چیز جو آپ کے اوپر، اور بلند ہے وہ آسمان کہلاتی ہے۔ بنا بریں علمائے تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں آسمان سے مراد بادل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا ﴿فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّ٘مَرٰتِ﴾ اور اس پانی کے ذریعے سے مختلف اقسام کے غلہ جات، مختلف انواع کے پھل اور میوہ جات، کھجوریں اور دیگر کھیتیاں اگائیں ﴿رِزْقًا لَّکُمْ﴾ تمھارے رزق کے طور پر، جس سے تم رزق اور خوراک حاصل کرتے ہو، اس رزق سے زندگی بسر کرنے کا سامان کرتے ہو اور اس سے تم لذت حاصل کرتے ہو۔ ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ پس تم مخلوق میں سے اس کی برابری کرنے والے ہمسر بنا کر ان کی عبادت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو، اور ان سے ایسی محبت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، وہ بھی تمھاری مانندمخلوق ہیں ان کو بھی رزق دیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کی بھی تدبیر کی جاتی ہے۔ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ وہ تمھیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ حالانکہ تم جانتے ہو کہ تخلیق کرنے، رزق عطا کرنے اور کائنات کی تدبیر کرنے میں اس کا کوئی شریک اور کوئی نظیر نہیں اور نہ الوہیت اور کمال میں اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے پھر تم کیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ یہ بڑی عجیب بات اور سب سے بڑی حماقت ہے۔ یہ آیت کریمہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کےحکم اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت کرنے سے ممانعت کو جمع کرنے والی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب کی واضح دلیل اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت کے بطلان کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ توحید ربوبیت ہے جو اس امر کو متضمن ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تخلیق کرتا، وہی رزق عطا کرتا اور وہی کائنات کی تدبیر کرتا ہے۔ جب ہر ایک شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں تو اسے یہ اقرار بھی کرنا چاہیے کہ عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان پر واضح ترین عقلی دلیل ہے۔ ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ‘‘ اس آیت کریمہ میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ جب تم ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے تو اس کی ناراضی اور عذاب سے بچ جاؤ گے۔ کیونکہ تم نے ایک ایسا سبب اختیار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جاؤ گے تو تم متقین میں شمار ہو گے جو تقویٰ کی صفت سے آراستہ ہوتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں اور دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے، یعنی جو کوئی کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اس کا شمار اہل تقویٰ میں ہوتا ہے اور جو کوئی متقی بن جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[22]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List