Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
33
SuraName
تفسیر سورۂ اَحزاب
SegmentID
1212
SegmentHeader
AyatText
{29} {وإن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الله ورسولَه والدارَ الآخرة}؛ أي: هذه الأشياء مرادُكُنَّ وغايةُ مقصودِكُنَّ، وإذا حصل لَكُنَّ الله ورسوله والجنة؛ لم تبالينَ بسعة الدنيا وضيقها ويُسرها وعُسرها، وقنعتنَّ من رسول الله بما تيسَّر، ولم تطلبنَ منه ما يشقُّ عليه، {فإنَّ الله أعدَّ للمحسناتِ منكنَّ أجراً عظيماً}: رتَّب الأجر على وصفهنَّ بالإحسان؛ لأنَّه السبب الموجب لذلك، لا لكونهنَّ زوجاتٍ للرسول؛ فإنَّ مجرَد ذلك لا يكفي، بل لا يفيدُ شيئاً مع عدم الإحسان، فخيَّرَهُنَّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في ذلك، فاخترنَ الله ورسوله والدار الآخرة كلُّهن ، لم يتخلفْ منهنَّ واحدةٌ رضي الله عنهن. وفي هذا التخيير فوائدُ عديدة: منها: الاعتناءُ برسوله والغيرةُ عليه أن يكون بحالة يشقُّ عليه كثرةُ مطالب زوجاته الدنيويَّة. ومنها: سلامتُه - صلى الله عليه وسلم - بهذا التخيير من تَبِعَةِ حقوق الزوجات، وأنَّه يبقى في حرِّية نفسه إن شاء أعطى وإن شاء منع، ما كان على النبيِّ من حرج فيما فرضَ الله له. ومنها: تنزيهُهُ عمَّا لو كان فيهنَّ مَنْ تؤثِرُ الدُّنيا على الله ورسوله والدار الآخرة عنها، وعن مقارنتها. ومنها: سلامةُ زوجاتِهِ رضي الله عنهنَّ عن الإثم والتعرُّض لسخط اللَّه ورسوله، فحسم الله بهذا التخيير عنهنَّ التسخُّط على الرسول الموجب لسَخَطِهِ المُسْخِطِ لربِّه الموجب لعقابه. ومنها: إظهار رفعتهنَّ وعلوِّ درجتهنَّ وبيان علوِّ هممهنَّ أن كان اللهُ ورسولُه والدار الآخرة مرادَهُنَّ ومقصودَهن دون الدُّنيا وحطامها. ومنها: استعدادُهُنَّ بهذا الاختيار للأمر الخيار للوصول إلى خيار درجات الجنة وأنْ يكنَّ زوجاتِهِ في الدُّنيا والآخرة. ومنها: ظهورُ المناسبة بينه وبينهنَّ؛ فإنَّه أكمل الخلق، وأراد الله أن تكون نساؤه كاملاتٍ مكمَّلاتٍ طيباتٍ مطيَّباتٍ، {الطيِّباتُ للطيبين والطيِّبونَ للطيبات}. ومنها: أنَّ هذا التخيير داعٍ وموجب للقناعة التي يطمئنُّ لها القلبُ وينشرحُ لها الصدرُ، ويزول عنهنَّ جشعُ الحرص وعدم الرِّضا الموجب لقلق القلب واضطرابِهِ وهمِّه وغمِّه. ومنها: أن يكون اختيارهنَّ هذا سبباً لزيادة أجرهنَّ ومضاعفتِهِ، وأن يكنَّ بمرتبةٍ ليس فيها أحدٌ من النساء، ولهذا قال:
AyatMeaning
[29] ﴿وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ ﴾ ’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طلبگار ہو۔‘‘ یعنی اگر آخرت کا گھر تمھارا مطلوب و مقصود ہے اور جب تمھیں اللہ، اس کا رسول اور آخرت حاصل ہو جائیں تو تمھیں دنیا کی کشادگی اور تنگی، اس کی آسانی اور سختی کی پروا نہ ہو اور تم اسی پر قناعت کرو جو تمھیں رسول اللہ e کی طرف سے میسر ہے اور آپ سے ایسا مطالبہ نہ کرو جو آپ پر شاق گزرے ﴿فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْؔكُ٘نَّ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’تو (جان لو) اللہ نے تم میں سے نیکو کاروں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کررکھا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے وصف احسان پر اجر مرتب کیا ہے کیونکہ اس اجر کا سبب اور موجب یہ نہیں کہ وہ رسول (e)کی بیویاں ہیں بلکہ اس کا موجب یہی وصف ہے۔ احسان کا وصف معدوم ہوتے ہوئے مجرد رسولe کی بیویاں ہونا کافی نہیں۔ رسول اللہ e نے تمام ازواج مطہراتg کو اختیار دے دیا۔ تمام ازواج مطہراتg نے اللہ، اس کے رسول اور آخرت کو اختیار کر لیا، ان میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہی ۔ اس تخییر سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول (e)کے لیے اہتمام کرنا اور اس پر غیرت کا اظہار کرنا، آپ کا ایسے حال میں ہونا کہ آپ کی ازواج مطہرات کے بہت سے دنیاوی مطالبات کا آپ پر شاق گزرنا۔ (۲) اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ e کا اپنی ازواج مطہرات کے حقوق کے بوجھ سے سلامت ہونا، اپنے آپ میں آزاد ہونا، اگر آپ e چاہیں تو عطا کریں اور اگر چاہیں تو محروم رکھیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ ﴾ (الاحزاب:33؍38) ’’نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی حرج نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کر دیا۔‘‘ (۳) اللہ تعالیٰ کے رسول کا ان امور سے منزہ ہونا جو اگر ازواج مطہرات میں ہوتے ، مثلاً: اللہ اور اس کے رسول پر دنیا کو ترجیح دینا... تو آپ ان کے قریب نہ جاتے۔ (۴) آپ e کی ازواج مطہرات کا گناہ اور کسی ایسے امر سے تعرض سے سلامت ہونا جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی کا موجب ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ e پر ان کی ناراضی کو ختم کر دیا، جو آپ کی ناراضی کا موجب تھی، آپ کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی عذاب کی موجب ہے۔ (۵) ان آیات کریمہ سے، ازواج مطہرات کی رفعت، ان کے درجات کی بلندی اور ان کی عالی ہمتی کا اظہار ہوتا ہے کہ انھوں نے دنیا کے چند ٹکڑوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اپنا مطلوب و مقصود اور اپنی مراد بنایا۔ (۶) ازواج مطہرات کا اس اختیار کے ذریعے سے ایک ایسے معاملے کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہونا جو جنت کے درجات تک پہنچاتا ہے۔ نیز اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ تمام ازواج مطہرات دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں۔ (۷) اس آیت کریمہ سے نبی e کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان کامل مناسبت کا اظہار ہوتا ہے۔ رسول اللہ e کامل ترین ہستی ہیں اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آپ کی ازواج مطہرات بھی کامل اور پاک عورتیں ہوں۔ ﴿وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ ﴾ (النور:24؍26) ’’پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔‘‘ (۸) یہ تخییر قناعت کی داعی اور اس کی موجب ہے۔ جس سے اطمینان قلب اور انشراح صدر حاصل ہوتا ہے، لالچ اور عدم رضا زائل ہو جاتے ہیں جو قلب کے لیے قلق، اضطراب اور ہم و غم کا باعث ہوتے ہیں۔ (۹) ازواج مطہرات کا آپ کو اختیار کرنا، ان کے اجر میں کئی گنا اضافے کا سبب ہے نیز یہ کہ وہ ایک ایسے مرتبے پر فائز ہیں جس میں دنیا کی کوئی عورت شریک نہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[29]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List