Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
33
SuraName
تفسیر سورۂ اَحزاب
SegmentID
1211
SegmentHeader
AyatText
{13} {وإذ قالت طائفةٌ}: من المنافقين بعد ما جزعوا وقلَّ صبرُهم صاروا أيضاً من المخذِّلين؛ فلا صبروا بأنفسهم، ولا تركوا الناس من شرِّهم، فقالت هذه الطائفة: {يا أهلَ يَثْرِبَ}: يريدون: يا أهل المدينة! فنادَوهْم باسم الوطن المنبئ عن التسمية فيه؛ إشارةً إلى أنَّ الدين والأخوة الإيمانيَّة ليس له في قلوبهم قدرٌ؛ وأنَّ الذي حملهم على ذلك مجردُ الخور الطبيعي. {يا أهلَ يثربَ لا مُقام لكم}؛ أي: في موضعكم الذي خرجتُم إليه خارج المدينة، وكانوا عسكروا دون الخندق وخارج المدينة، {فارجِعوا}: إلى المدينةِ. فهذه الطائفةُ تُخَذِّلُ عن الجهاد وتبيِّن أنَّهم لا قوة لهم بقتال عدوِّهم ويأمرونهم بترك القتال؛ فهذه الطائفةُ أشرُّ الطوائف وأضرُّها، وطائفةٌ أخرى دونهم، أصابهم الجبنُ والجزع، وأحبُّوا أن ينخزلوا عن الصفوف، فجعلوا يعتذرون بالأعذار الباطلة، وهم الذين قال الله فيهم: {ويستأذنُ فريقٌ منهم النبيَّ يقولونَ إنَّ بيوتَنا عورةٌ}؛ أي: عليها الخطر ونخافُ عليها أن يَهْجُمَ عليها الأعداءُ ونحن غيبٌ عنها؛ فأذن لنا؛ نرجع إليها فنحرسها، وهم كذبةٌ في ذلك، {وما هي بعورةٍ إن يريدون}؛ أي: ما قصدُهم {إلاَّ فراراً}: ولكن جعلوا هذا الكلام وسيلةً وعذراً لهم؛ فهؤلاء قلَّ إيمانُهم، وليس له ثبوتٌ عند اشتدادِ المحنِ.
AyatMeaning
[13] ﴿وَاِذْ قَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی‘‘ یعنی منافقین کی جماعت، وہ جزع فزع اور قلت صبر کے بعد ایسے لوگوں میں شامل ہو گئے جن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا، انھوں نے خود صبر کیا نہ اپنے شر کی بنا پر لوگوں کو چھوڑا، لہٰذا اس گروہ نے کہا: ﴿یٰۤاَهْلَ یَثْ٘رِبَ ﴾ ’’اے اہل یثرب!‘‘ اس سے ان کی مراد اہل مدینہ تھے۔ انھوں نے مدینہ کے نام کو چھوڑ کر وطن کے نام سے ان کو پکارا۔ یہ چیز اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کے دلوں میں دین اور اخوت ایمانی کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ جس چیز نے ان کو ایسا کہنے پر آمادہ کیا وہ ان کی طبعی بزدلی تھی۔ ﴿یٰۤاَهْلَ یَثْ٘رِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ ﴾ ’’اے اہل یثرب! (یہاں) تمھارے لیے ٹھہرنے کا مقام نہیں۔‘‘ یعنی اس جگہ جہاں تم مدینہ سے باہر نکلے ہو۔ ان کا محاذ مدینہ منورہ سے باہر اور خندق سے ادھر تھا۔ ﴿فَارْجِعُوْا ﴾ مدینے کی طرف لوٹ جاؤ ، پس یہ گروہ جہاد سے علیحدہ ہو رہا تھا۔ ان پر واضح ہو گیا کہ ان میں دشمن کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں اور وہ انھیں لڑائی ترک کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ گروہ بدترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ گروہ تھا۔ ان کے علاوہ دوسرا گروہ وہ تھا جس کو بزدلی اور بھوک نے ستا رکھا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وہ صفوں سے کھسک کر چلے جائیں۔ انھوں نے مختلف قسم کے جھوٹے عذر پیش کرنا شروع کر دیے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَیَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّؔنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ ﴾ ’’اور ان کی جماعت یہ کہہ کر نبی(e) سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی ہمارے گھر خطرے کی زد میں ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری عدم موجودگی میں دشمن ہمارے گھروں پر حملہ نہ کر دے، اس لیے ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم واپس جا کر اپنے گھروں کی حفاظت کریں، حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے۔ ﴿وَمَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا ﴾ ’’حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف (جنگ سے) بھاگنا چاہتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کا قصد فرار کے سوا کچھ نہیں، مگر انھوں نے اس بات کو فرار کے لیے وسیلہ اور عذر بنا لیا۔ ان لوگوں میں ایمان بہت کم ہے اور امتحان کی سختیوں کے وقت ان کے اندر ثابت قدمی اور استقامت نہیں رہتی۔
Vocabulary
AyatSummary
[13]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List