Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
142
SegmentHeader
AyatText
{259} هذان دليلان عظيمان محسوسان في الدنيا قبل الآخرة على البعث والجزاء، واحد أجراه الله على يد رجل شاك في البعث على الصحيح كما تدل عليه الآية الكريمة، والآخر على يد خليله إبراهيم، كما أجرى دليل التوحيد السابق على يده. فهذا الرجل مرَّ على قرية قد دمرت تدميراً وخوت على عروشها قد مات أهلها وخربت عمارتها، فقال على وجه الشك والاستبعاد: {أنى يحيي هذه الله بعد موتها}؟ أي: ذلك بعيد وهي في هذه الحال، يعني وغيرها مثلها بحسب ما قام بقلبه تلك الساعة، فأراد الله رحمته ورحمة الناس حيث أماته الله مئة عام، وكان معه حمار فأماته معه، ومعه طعام وشراب فأبقاهما الله بحالهما كل هذه المدد الطويلة. فلما مضت الأعوام المائة بعثه الله فقال: {كم لبثت قال: لبثت يوماً أو بعض يوم}؛ وذلك بحسب ما ظنه، فقال الله: {بل لبثت مائة عام}؛ والظاهر أن هذه المجاوبة على يد بعض الأنبياء الكرام. ومن تمام رحمة الله به وبالناس أنه أراه الآية عياناً ليقتنع بها، فبعد ما عرف أنه ميت قد أحياه الله قيل له: انظر {إلى طعامك وشرابك لم يتسنه}؛ أي: لم يتغير في هذه المُدَد الطويلة. وذلك من آيات قدرة الله فإن الطعام والشراب خصوصاً ما ذكره المفسرون أنه فاكهة وعصير لا يلبث أن يتغير وهذا قد حفظه الله مئة عام وقيل له: {انظر إلى حمارك}؛ فإذا هو قد تمزق وتفرق وصار عظاماً نخرة، {وانظر إلى العظام كيف ننشزها}؛ أي: نرفع بعضها إلى بعض ونصل بعضها ببعض بعدما تفرقت وتمزقت {ثم نكسوها}؛ بعد الالتئام {لحماً}؛ ثم نعيد فيه الحياة {فلما تبين له}؛ رأيَ عين لا يقبل الريب بوجه من الوجوه {قال أعلم أن الله على كل شيء قدير}؛ فاعترف بقدرة الله على كل شيء وصار آية للناس، لأنهم قد عرفوا موته وموت حماره وعرفوا قضيته ثم شاهدوا هذه الآية الكبرى. هذا هو الصواب في هذا الرجل. وأما قول كثير من المفسرين: أن هذا الرجل مؤمن أو نبي من الأنبياء إما عزير أو غيره وأن قوله: {أنى يحيي هذه الله بعد موتها}؛ يعني كيف تعمر هذه القرية بعد أن كانت خراباً، وأن الله أماته ليريه ما يعيد لهذه القرية من عمارتها بالخلق وأنها عمرت في هذه المدة وتراجع الناس إليها وصارت عامرة بعد أن كانت دامرة، فهذا لا يدل عليه اللفظ بل ينافيه، ولا يدل عليه المعنى، فأي آية وبرهان برجوع البلدان الدامرة إلى العمارة، وهذه لم تزل تشاهد تعمر قرى ومساكن، وتخرب أخرى، وإنما الآية العظيمة في إحيائه بعد موته وإحياء حماره وإبقاء طعامه وشرابه لم يتعفن ولم يتغير، ثم قوله: {فلما تبين له}؛ صريح في أنه لم يتبين له إلا بعدما شاهد هذه الحال الدالة على كمال قدرته عيانا.
AyatMeaning
[259] یہ ایک اور دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی خالق ہے۔ وہی سب فیصلے کرتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’یا اس شخص کے مانند جس کا گزر ایک بستی پر ہوا، جو چھتوں کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی۔‘‘ یعنی اس کے باشندے مرکھپ گئے تھے، اور چھتیں گر کر اوپر دیواریں گر چکی تھیں، وہاں کوئی نہیں رہتا تھا بلکہ بالکل ویران ہوچکی تھی۔ وہ شخص وہاں کھڑا ہوکر تعجب سے بولا: ﴿ اَنّٰى یُحْیٖ هٰؔذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ’’اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟‘‘ اسے یہ چیز ناممکن محسوس ہوئی، اس نے اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہ کیا۔ اللہ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا تو خود اس کی ذات میں اور اس کے گدھے میں اپنی قدرت کا مشاہدہ کرادیا۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی تھا۔ ﴿ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّؔ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ﴾ ’’پس اللہ نے اسے سو سال کے لیے مار دیا۔ پھر اسے اٹھایا، پوچھا: کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔‘‘ اسے یہ موت انتہائی مختصر محسوس ہوئی، کیونکہ اس کے احساسات ختم ہوچکے تھے۔ اسے اپنی صرف وہ حالت یاد تھی جو اسے موت سے پہلے معلوم تھی۔ اسے بتایا گیا: ﴿ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْ٘ظُ٘رْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ﴾ ’’بلکہ تو سو سال تک رہا۔ پس اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا۔‘‘ سالوں کی مدت گزرنے کے باوجود اور مختلف اوقات گزرنے کے باوجود اس میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں اللہ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ اس نے کھانے پینے کی چیزوں کو تبدیل یا خراب ہونے سے بچائے رکھا حالانکہ یہ چیزیں سب سے جلدی خراب ہوتی ہیں۔ ﴿ وَانْ٘ظُ٘رْ اِلٰى حِمَارِكَ﴾ ’’اور اپنے گدھے کوبھی دیکھ۔‘‘ وہ مرچکا تھا۔ اس کا گوشت اور چمڑاریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔ اس کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ ﴿وَلِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ﴾ ’’اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں۔‘‘ جس سے اللہ کی قدرت ظاہر ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرکے قبروں سے اٹھا سکتا ہے۔ تاکہ یہ ایسی مثال بن جائے جس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں اور انھیں معلوم ہوجائے کہ پیغمبرنے جو خبریں دی ہیں وہ واقعی سچی ہیں۔ ﴿ وَانْ٘ظُ٘رْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُ٘نْ٘شِزُهَا﴾ ’’اور تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں۔‘‘ اور انھیں ایک دوسری سے جوڑتے ہیں۔ ﴿ ثُمَّؔ نَكْ٘سُوْهَا لَحْمًا﴾ ’’پھر ہم ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔‘‘ پس اس نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ ہوتے دیکھ لیا۔ ﴿ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ﴾ ’’جب یہ سب اس کے لیے ظاہر ہوچکا۔‘‘ اور اسے اللہ کی قدرت کا علم ہوگیا۔ تو کہنے لگا: ﴿ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص موت کے بعد کی زندگی کا منکر تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی کہ اسے ہدایت دے کر لوگوں کے لیے نشانی اور قیامت کی دلیل بنا دے۔ اس موقف کے تین دلائل ہیں: (۱) اس نے کہا: ﴿ اَنّٰى یُحْیٖ هٰؔذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ’’اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا۔؟‘‘ اگر وہ نبی یا نیک بندہ ہوتا تو یوں نہ کہتا۔ (۲) اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی خوراک، اس کے مشروب، اس کے گدھے اور اس کی ذات میں اپنی نشانی دکھا دی، تاکہ وہ جس چیز کا انکار کرتا ہے اسے آنکھوں سے دیکھ کر اقرار کرلے۔ آیت میں یہ ذکر نہیں کہ وہ بستی بعد میں پہلے کی طرح آباد ہوگئی تھی۔ نہ سیاق کلام ہی سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ نہ اس کا کوئی خاص فائدہ ہی ہے۔ ایک بستی جو بے آباد ہوگئی۔ بعد میں اس کے باشندوں نے واپس آکر یا دوسرے لوگوں نے رہائش اختیار کرکے اسے آباد کردیا تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اللہ مردوں کو زندہ کرے گا؟ اصل دلیل تو خود اسے اور اس کے گدھے کو زندہ کرنے میں اور اس کے سامان خورونوش کو اصلی حالت میں باقی رکھنے میں ہے۔ (۳) اللہ نے فرمایا: ﴿ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ﴾ ’’جب اس کے لیے ظاہر ہوگیا۔‘‘ یعنی جو چیز اسے معلوم نہیں تھی، اس سے مخفی تھی، وہ ظاہر اور واضح ہوگئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا قول صحیح ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ۔
Vocabulary
AyatSummary
[259
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List