Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
141
SegmentHeader
AyatText
{258} يقص الله علينا من أنباء الرسل والسالفين ما به تتبين الحقائق، وتقوم البراهين المتنوعة على التوحيد، فأخبر تعالى عن خليله إبراهيم - صلى الله عليه وسلم -، حيث حاج هذا الملك الجبار، وهو نمرود البابلي المعطل المنكر لرب العالمين، وانتدب لمقاومة إبراهيم الخليل ومحاجته في هذا الأمر الذي لا يقبل شكًّا ولا إشكالاً ولا ريباً وهو توحيد الله وربوبيته الذي هو أجلى الأمور وأوضحها. ولكن هذا الجبار غره ملكه وأطغاه حتى وصلت به الحال إلى أن نفاه، وحاج إبراهيمَ الرسولَ العظيمَ الذي أعطاه الله من العلم واليقين ما لم يعط أحداً من الرسل سوى محمد - صلى الله عليه وسلم -، فقال إبراهيم مناظراً له: {ربي الذي يحيي ويميت}؛ أي: هو المنفرد بالخلق والتدبير والإحياء والإماتة، فذكر من هذا الجنس أظهرها وهو الإحياء والإماتة، فقال ذلك الجبار مباهتاً: {أنا أحيي وأميت}؛ وعنى بذلك أني أقتل من أردت قتله وأستبقي من أردت استبقاءه، ومن المعلوم أن هذا تمويه وتزوير عن المقصود، وأن المقصود أن الله تعالى هو الذي تفرد بإيجاد الحياة في المعدومات وردها على الأموات، وأنه هو الذي يميت العباد والحيوانات بآجالها بأسباب ربطها وبغير أسباب. فلما رآه الخليل مموهاً تمويهاً ربما راج على الهمج الرَّعاع قال إبراهيم ملزماً له بتصديق قوله إن كان كما يزعم: {فإن الله يأتي بالشمس من المشرق فأت بها من المغرب، فبهت الذي كفر}؛ أي: وقف وانقطعت حجته، واضمحلت شبهته. وليس هذا من الخليل انتقالاً من دليل إلى آخر، وإنما هو إلزام لنمرود بطرد دليله إن كان صادقاً وأتى بهذا الذي لا يقبل الترويج والتزوير والتمويه، فجميع الأدلة السمعية والعقلية والفطرية قد قامت شاهدة بتوحيد الله معترفة بانفراده بالخلق والتدبير وأن من هذا شأنه لا يستحق العبادة إلا هو، وجميع الرسل متفقون على هذا الأصل العظيم، ولم ينكره إلا معاند مكابر مماثل لهذا الجبار العنيد، فهذا من أدلة التوحيد، ثم ذكر أدلة كمال القدرة والبعث والجزاء فقال:
AyatMeaning
[258] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو ابراہیم(u)سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔‘‘ یعنی کیا آپ نے اس کی جراء ت، تجاہل، عناد اور ناقابل شک حقیقت کے بارے میں جھگڑے کا مشاہدہ نہیں فرمایا؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی۔ ﴿ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ﴾ ’’کہ اسے اللہ نے حکومت دی تھی۔‘‘ تو وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ رعیت کا حکمران بن گیا ہے تو اتنی جرأت کی کہ ابراہیمuسے اللہ کی ربوبیت کے بارے میں بحث کرنے لگا۔ اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ ابراہیمuنے فرمایا: ﴿ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُـمِیْتُ﴾ ’’میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔‘‘ یعنی ہر کام کا اختیار اسی کو حاصل ہے۔ آپ نے زندہ کرنے اور مارنے کا خاص طورپر ذکر فرمایا کیونکہ یہ سب سے عظیم تدبیر ہے۔ اور اس لیے بھی کہ زندگی بخشنا دنیا کی زندگی کی ابتدا ہے اور موت دینا آخرت کے معاملات کی ابتدا ہے۔ اس کے جواب میں اس نے کہا: ﴿ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ﴾ ’’میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں۔‘‘ اس نے یہ نہیں کہا: ’’میں ہی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔‘‘ کیونکہ اس کا دعویٰ مستقل تصرف کا نہیں تھا۔ بلکہ وہ کہتا تھا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک آدمی کو قتل کردیتا ہے تو گویا اسے موت دے دی۔ اور ایک آدمی کو زندہ رہنے دیتا ہے تو گویا اسے زندگی بخش دی۔ جب ابراہیمuنے دیکھا کہ یہ شخص بحث میں مغالطہ سے کام لیتا ہے۔ اور ایسی باتیں کہتا ہے جو دلیل تو درکنار شبہ بننے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں تو ایک دوسری دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ یَ٘اْتِیْ بِالشَّ٘مْسِ مِنَ الْ٘مَشْ٘رِقِ﴾ ’’اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہر شخص تسلیم کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ کافر بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔ ﴿ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْ٘مَغْرِبِ﴾ ’’پس تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔‘‘ یہ الزامی دلیل ہے۔ اگر وہ اپنے دعوی میں سچا ہوتا تو یہ اس کے موافق ہوجاتی۔ جب آپ نے ایسی بات فرمادی جس میں شبہ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ نہ اس کے پاس اس دلیل کا کوئی توڑ موجود تھا۔ ﴿ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ﴾ ’’اس لیے وہ کافر حیران رہ گیا۔‘‘ یعنی حیرت زدہ ہوگیا، اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس کی دلیل غلط ثابت ہوگئی اور اس کا پیش کردہ شبہ کالعدم ہوگیا۔ جو بھی جھوٹا ضد اور عناد کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنا چاہے، وہ اسی طرح مغلوب اور شکست خوردہ ہوجایا کرتا ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ بلکہ انھیں کفر و ضلالت میں مبتلا رہنے دیتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے لیے خود یہ چیز پسند کرلی ہوتی ہے۔ اگر ان کا مقصد ہدایت کا حصول ہوتا تو اللہ انھیں ہدایت دے دیتا اور ہدایت تک پہنچنے کے اسباب مہیا کردیتا۔ یہ آیت ایک قطعی دلیل ہے کہ اللہ ہی خالق ہے اور وہی مختار کل ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت اور ہر حال میں توکل اسی کا حق ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اس مناظرہ میں ایک باریک نکتہ ہے کہ دنیا میں شرک کا دارومدار ستاروں اور قبروں کی عبادت پر ہے۔ بعدمیں انھی کے نام سے بت تراشے گئے۔ ابراہیمuنے جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں ان سب کی الوہیت کی اجمالاً تردید موجود ہے کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک ہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ وہ زندہ، جو مرجانے والا ہے وہ زندگی میں معبود بننے کی اہلیت رکھتا ہے نہ مرنے کے بعد۔ کیونکہ اس کا ایک رب ہے، جو قادر ہے، زبردست ہے، وہ اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتا ہے۔ جو ایسا مجبور ہو وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی صورت کا بت بنایا جائے اور اس کی پوجا کی جائے۔ اسی طرح ستاروں کا حال ہے۔ ان میں سے بڑا نظر آنے والا سورج ہے۔ یہ بھی حکم کا پابند ہے، اپنے بارے میں آزادی سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس کا خالق و مالک ہی اسے مشرق سے لاتا ہے تو وہ اس کے حکم اور مرضی کے مطابق اطاعت کرتا ہے۔ یعنی یہ بھی مربوب اور مسخر یعنی حکم کا پابند غلام ہے۔ معبود نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے۔‘‘ (مفتاح دارالسعادۃ) اس کے بعد فرمایا:
Vocabulary
AyatSummary
[258
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List