Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
30
SuraName
تفسیر سورۂ روم
SegmentID
1168
SegmentHeader
AyatText
{32} ثم ذَكَرَ حالة المشركين مهجِّناً لها ومقبِّحاً، فقال: {من الذين فَرَّقوا دينَهم}: مع أنَّ الدين واحدٌ، وهو إخلاصُ العبادة لله وحدَه، وهؤلاء المشركون فرَّقوه: منهم من يعبدُ الأوثان والأصنام، ومنهم من يعبدُ الشمس والقمر، ومنهم من يعبدُ الأولياء والصالحين، ومنهم يهودٌ، ومنهم نصارى، ولهذا قال: {وكانوا شِيَعاً}؛ أي: كلُّ فرقةٍ من فرق الشرك تاهتْ وتعصَّبتْ على نصرِ ما معها من الباطل ومنابذةِ غيرِهِم ومحاربتِهم. {كلُّ حزبٍ بما لديهم}: من العلوم المخالفة لعلوم الرسل {فرِحونَ}: به يحكُمون لأنفسِهم بأنَّه الحقُّ وأنَّ غيرهم على باطل. وفي هذا تحذيرٌ للمسلمين من تشتُّتهم وتفرُّقهم فرقاً، كلُّ فريق يتعصَّبُ لما معه من حقٍّ وباطلٍ، فيكونون مشابهين بذلك للمشركين في التفرُّق، بل الدين واحدٌ، والرسول واحدٌ، والإله واحدٌ، وأكثر الأمور الدينيَّة وقع فيها الإجماع بين العلماء والأئمَّة، والأخوَّة الإيمانيَّة قد عقدها الله وربَطَها أتمَّ ربط؛ فما بالُ ذلك كلِّه يُلغى ويُبنى التفرُّقُ والشقاقُ بين المسلمين على مسائل خفيَّةٍ أو فروع خلافيَّةٍ يضلِّلُ بها بعضُهم بعضاً ويتميَّز بها بعضُهم عن بعضٍ؟! فهل هذا إلاَّ من أكبر نزغات الشيطانِ وأعظم مقاصدِهِ التي كاد بها المسلمين؟! وهل السعي في جمع كلمتهم وإزالةِ ما بينَهم من الشقاق المبنيِّ على ذلك الأصل الباطل إلاَّ من أفضل الجهادِ في سبيل الله وأفضلِ الأعمال المقرِّبة إلى الله؟! ولما أمر تعالى بالإنابة إليه، وكان المأمور بها هي الإنابة الاختيارية، التي تكون في حالِ العسر واليسر والسَّعة والضيق؛ ذكر الإنابة الاضطراريَّة التي لا تكون مع الإنسان إلاَّ عند ضيقِهِ وكربِهِ؛ فإذا زال عنه الضيق؛ نَبَذَها وراء ظهرِهِ، وهذه غيرُ نافعةٍ، فقال:
AyatMeaning
[32] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کی حالت کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُ٘وْا دِیْنَهُمْ ﴾ ’’جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا‘‘ حالانکہ دین ایک ہے اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو خالص کرنا اور ان مشرکین نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ان میں سے کچھ پتھروں اور بتوں کی عبادت کرنے لگے کچھ سورج اور چاند کو پوجنے لگے، ان میں سے کچھ نے اولیاء و صالحین کی عبادت کو وتیرہ بنا لیا اوران میں سے کچھ یہودی اور کچھ نصرانی ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَكَانُوْا شِیَعًا ﴾ ’’اور وہ فرقے فرقے ہوگئے۔‘‘ یعنی ہر فرقے نے اپنے باطل نظریات کی نصرت و تائید کے لیے تعصب پر مبنی اپنا الگ گروہ بنا لیا اور دوسروں سے دشمنی اور محاربت شروع کر دی۔ ﴿كُ٘لُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ ﴾ ’’سب فرقے اس سے جوان کے پاس ہے‘‘ انبیاء و مرسلین کے علوم کی مخالفت کرنے والے علوم میں سے وہ ﴿فَرِحُوْنَ ﴾ ان پر بہت خوش ہیں اور اپنے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ باطل پر ہیں۔ یہ آیت کریمہ تشتت اور تفرقہ بازی کے ضمن میں مسلمانوں کے لیے تنبیہ ہے کہ ہر فریق جو اپنے حق اور باطل نظریات کے بارے میں تعصب رکھتا ہے وہ تفرقہ بازی میں مشرکین سے مشابہت رکھتا ہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ دین ایک ہے، رسول ایک ہے اور معبود ایک ہے اور اکثر دینی امور کے بارے میں اہل علم اور ائمہ کرام کا اجماع واقع ہو چکا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت مربوط طریقے سے اخوت ایمان قائم کر دی ہے تب کیا بات ہے کہ ان تمام متفقہ اصولوں اور اخوت ایمانی کو باطل قرار دے کر انتہائی خفیف فروعی اور اختلافی مسائل کی بنا پر مسلمانوں کے درمیان افتراق اور دشمنی پیدا کی جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ سمجھتے ہیں۔ کیا یہ صورت حال شیطان کی طرف سے بڑا فساد اور اس کا سب سے بڑا مقصد نہیں جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو اپنے فریب میں مبتلا کرتا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ایک کلمہ پر جمع کرنا، ان کے درمیان ان اختلافات کا خاتمہ کرنا جو باطل اصولوں پر مبنی ہیں، اللہ کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور افضل ترین عمل نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انابت کا حکم دیا ہے، اور انابت، انابت اختیاری ہے جو عسرت و خوش حالی، فراخی اور تنگی ہر حال میں اختیار کی جاتی ہے ، پھر انابت اضطراری کا ذکر کیا جو انسان میں صرف اس وقت ہوتی ہے جب وہ تنگی اور تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب تنگی زائل ہو جاتی ہے تو وہ انابت کو بھی پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے، لہٰذا اس قسم کی انابت فائدہ مند نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
Vocabulary
AyatSummary
[32]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List