Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 30
- SuraName
- تفسیر سورۂ روم
- SegmentID
- 1168
- SegmentHeader
- AyatText
- {30} يأمرُ تعالى بالإخلاص له في جميع الأحوال وإقامةِ دينِهِ، فقال: {فأقم وجهَكَ}؛ أي: انصبْه ووجِّهْه {للدين}: الذي هو الإسلامُ والإيمانُ والإحسان، بأن تتوجَّه بقلبك وقصدِك وبَدَنِكَ إلى إقامة شرائع الدين الظاهرة كالصلاة والزكاة والصوم والحج ونحوها، وشرائعه الباطنة كالمحبَّة والخوف والرجاء والإنابة، والإحسان في الشرائع الظاهرة والباطنة؛ بأن تعبدَ الله فيها كأنَّك تراه؛ فإنْ لم تكنْ تراه؛ فإنَّه يراك. وخص الله إقامة الوجه؛ لأنَّ إقبال الوجه تَبَعٌ لإقبال القلب، ويترتَّب على الأمرين سعيُ البدن، ولهذا قال: {حَنيفاً}؛ أي: مقبلاً على الله في ذلك معرضاً عمَّا سواه، وهذا الأمر الذي أمرناك به هو {فطرةَ الله التي فَطَرَ الناس عليها}: ووضع في عقولهم حُسْنَها واستقباحَ غيرها؛ فإنَّ جميع أحكام الشرع الظاهرة والباطنة قد وَضَعَ اللهُ في قلوب الخلق كلِّهم الميلَ إليها، فوضع في قلوبهم محبَّة الحقِّ وإيثار الحقِّ، وهذا حقيقة الفطرة. ومَنْ خَرَجَ عن هذا الأصل؛ فلعارض عرض لفطرته أفسدها؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «كلُّ مولودٍ يولَدُ على الفطرةِ؛ فأبواه يهوِّدانِهِ أو ينصِّرانِهِ أو يمجِّسانِهِ». {لا تبديلَ لِخَلْقِ اللهِ}؛ أي: لا أحد يبدِّلُ خلق الله فيجعلُ المخلوقَ على غير الوضع الذي وَضَعَهُ الله. {ذلك}: الذي أمَرْناك به {الدِّينُ القيِّمُ}؛ أي: الطريق المستقيم الموصل إلى الله وإلى كرامتِهِ؛ فإنَّ مَن أقام وجهه للدين حنيفًا؛ فإنَّه سالك الصراط المستقيم في جميع شرائعِهِ وطرقِهِ، {ولكنَّ أكثرَ الناسِ لا يعلمون}: فلا يتعرَّفون الدِّين القيِّم، وإنْ عرفوه؛ لم يَسْلُكوه.
- AyatMeaning
- [30] اللہ تبارک و تعالیٰ تمام احوال میں اخلاص اور اقامت دین کا حکم دیتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿فَاَقِمْ وَجْهَكَ ﴾ اپنے آپ کو دین کی طرف متوجہ رکھیے اور اس سے مراد ہے اسلام، ایمان اور احسان ہے، یعنی اپنے قلب و قصد اور بدن کے ساتھ ظاہری شرائع کو قائم کیجیے، مثلاً: نماز، زکاۃ، روزہ اور حج وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ باطنی شرائع پر عمل کیجیے، مثلاً: اللہ تعالیٰ سے محبت، اس سے خوف، اس پر امید اور اس کی طرف انابت وغیرہ۔ ظاہری اور باطنی شرائع میں احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو اس طرح اس کی عبادت کرے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’چہرے کو قائم رکھنے‘‘ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ قلب کی توجہ، چہرے کی توجہ کی پیروی کرتی ہے اور ان دونوں امور پر بدن کی سعی مترتب ہوتی ہے اس لیے فرمایا: ﴿حَنِیْفًا ﴾ یعنی ہر طرف سے منہ پھیر کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھتے ہوئے۔ یہ چیز جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے وہ ﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ﴾ ’’ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عقول میں فطرت کے محاسن اور غیر فطرت کے قبائح ودیعت کر دیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی احکام کی طرف تمام مخلوق کے دلوں میں میلان رکھ دیا ہے۔ تو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں حق کی محبت اور حق کو ترجیح دینے کو ودیعت کر دیا اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔ جو کوئی اس اصول سے باہر ہے تو اس کا سبب کوئی عارضہ ہے جو اس کی فطرت کو لاحق ہے جس نے اسے فاسد کر کے رکھ دیا ہے جیسا کہ نبی اکرم e نے فرمایا: ’کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوَّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ‘ (صحیح البخاري، التفسیر، باب قولہ: ﴿فلا تعلم نفس....﴾ (السجدۃ: 32؍17، ح: 4779) ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پس اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔‘‘ ﴿لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْ٘قِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی تخلیق میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔‘‘ کوئی ایسی ہستی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کر سکے اور اس کو ایسی وضع پر تبدیل کر دے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ وضع سے مختلف ہے ﴿ذٰلِكَ الدِّیْنُ ﴾ ’’یہ‘‘ جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے ﴿الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﴾ ’’سیدھا دین ہے‘‘ یعنی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے ۔جوکوئی ہر طرف سے توجہ ہٹا کر دین میں یکسو ہوتا ہے وہ اپنے تمام شرائع اور تمام طریقوں میں صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے وہ دین کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اگر انھیں دین کی معرفت حاصل ہو ہی جائے تو اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [30]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF