Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
138
SegmentHeader
AyatText
{255} أخبر - صلى الله عليه وسلم - أن هذه الآية أعظم آيات القرآن لما احتوت عليه من معاني التوحيد والعظمة وسعة الصفات للباري تعالى، فأخبر أنه {الله}؛ الذي له جميع معاني الألوهية، وأنه لا يستحق الألوهية والعبودية إلا هو، فألوهية غيره وعبادة غيره باطلة، وأنه {الحي} الذي له جميع معاني الحياة الكاملة من السمع والبصر والقدرة والإرادة وغيرها من الصفات الذاتية، كما أن {القيوم}؛ تدخل فيه جميع صفات الأفعال لأنه القيوم الذي قام بنفسه واستغنى عن جميع مخلوقاته وقام بجميع الموجودات فأوجدها وأبقاها وأمدها بجميع ما تحتاج إليه في وجودها وبقائها. ومن كمال حياته وقيوميته أنه {لا تأخذه سنة}؛ أي: نعاس {ولا نوم}؛ لأن السنة والنوم إنما يعرضان للمخلوق الذي يعتريه الضعف والعجز والانحلال، ولا يعرضان لذي العظمة والكبرياء والجلال، وأخبر أنه مالك جميع ما في السماوات والأرض، فكلهم عبيد لله مماليك لا يخرج أحد منهم عن هذا الطور {إن كل من في السموات والأرض إلا آتي الرحمن عبداً}؛ فهو المالك لجميع الممالك وهو الذي له صفات الملك والتصرف والسلطان والكبرياء، ومن تمام ملكه أنه لا {يشفع عنده}؛ أحد {إلا بإذنه}؛ فكل الوجهاء والشفعاء عبيد له مماليك لا يَقْدِمُون على شفاعة حتى يأذن لهم {قل لله الشفاعة جميعاً له ملك السموات والأرض}؛ والله لا يأذن لأحد أن يشفع إلا فيمن ارتضى ولا يرتضي إلا توحيده واتباع رسله، فمن لم يتصف بهذا فليس له في الشفاعة نصيب. ثم أخبر عن علمه الواسع المحيط وأنه يعلم ما بين أيدي الخلائق من الأمور المستقبلة التي لا نهاية لها {وما خلفهم}؛ من الأمور الماضية التي لا حد لها، وأنه لا تخفى عليه خافية {يعلم خائنة الأعين وما تخفي الصدور}؛ وأن الخلق لا يحيط أحد بشيء من علم الله ومعلوماته {إلا بما شاء} منها وهو ما أطلعهم عليه من الأمور الشرعية والقدرية، وهو جزء يسير جدًّا مضمحل في علوم الباري ومعلوماته كما قال أعلم الخلق به وهم الرسل والملائكة: {سبحانك لا علم لنا إلا ما علمتنا}؛ ثم أخبر عن عظمته وجلاله وأن كرسيه وسع السماوات والأرض، وأنه قد حفظهما ومن فيهما من العوالم بالأسباب والنظامات التي جعلها الله في المخلوقات، ومع ذلك فلا يؤوده أي يثقله حفظهما لكمال عظمته واقتداره وسعة حكمته في أحكامه {وهو العلي}؛ بذاته على جميع مخلوقاته، وهو العلي بعظمة صفاته، وهو العلي الذي قهر المخلوقات، ودانت له الموجودات، وخضعت له الصعاب، وذلت له الرقاب {العظيم}؛ الجامع لجميع صفات العظمة والكبرياء والمجد والبهاء، الذي تحبه القلوب، وتعظمه الأرواح، ويعرف العارفون أن عظمة كل شيء وإن جلت عن الصفة فإنها مضمحلة في جانب عظمة العلي العظيم. فآية احتوت على هذه المعاني التي هي أجل المعاني يحق أن تكون أعظم آيات القرآن، ويحق لمن قرأها متدبراً متفهماً أن يمتلئ قلبه من اليقين والعرفان والإيمان، وأن يكون محفوظاً بذلك من شرور الشيطان.
AyatMeaning
[255] یہ آیت قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے اور یہ سب سے افضل آیت ہے جس میں عظیم مسائل اور اللہ کی صفات کریمہ بیان ہوئی ہیں، اس لیے بہت سی احادیث میں اس کی تلاوت کی ترغیب وارد ہے کہ اسے صبح شام، سوتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ ’’اللہ ہی معبود برحق ہے۔‘‘ لہٰذا ہر قسم کی عبادت اور اطاعت اسی کے لیے ہونی چاہیے کیونکہ وہ تمام صفات سے متصف اور عظیم نعمتیں دینے والا ہے۔ بندے کا یہ حق ہے کہ اپنے رب کا بندہ بن کر رہے، اس کے احکامات کی تعمیل کرتا رہے، اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے بچتا رہے۔ اللہ کے سوا ہر شے باطل ہے، پس اس کے سوا ہر ایک کی عبادت باطل ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر چیز مخلوق اور ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی کسی عبادت کا حق نہیں رکھتی۔‘‘ ﴿ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔‘‘ ان دو اسمائے حسنیٰ (اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ خواہ وہ دلالت مطابقت سے ہو یا دلالت تضمن سے یا دلالت لزوم سے۔ ’’ اَلْحَیُّ ‘‘ سے مراد وہ ہستی ہے جسے کامل حیات حاصل ہو، اور یہ مستلزم ہے تمام صفات ذاتیہ کو، مثلاً سننا، دیکھنا، جاننا قدرت رکھنا وغیرہ۔ ’’القیوم‘‘ سے مراد وہ ذات ہے جو خود قائم ہو اور دوسروں کا قیام اس سے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام افعال شامل ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہے، یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، استواء، نزول، کلام، قول، پیدا کرنا، رزق دینا، موت دینا، زندہ کرنا اور دیگر انواع کی تدبیر سب اس کے قیوم ہونے میں شامل ہیں، اس لیے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہی وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے کی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اس کی حیات اور قیومیت کے تمام ہونے کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ﴿ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌؔ﴾ ’’اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔‘‘ ﴿ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’اس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں۔‘‘ وہ مالک ہے، باقی سب مملوک ہیں۔ وہ خالق، رازق اور مدبر ہے۔ باقی سب مخلوق، مرزدق اور مُدَبَّر۔ کسی کے ہاتھ میں آسمان و زمین کے معاملات میں سے نہ اپنے لیے ذرہ بھر اختیار ہے نہ دوسروں کے لیے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَ٘شْ٘فَ٘عُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ﴾ ’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟‘‘ یعنی کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ تو شفاعت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن وہ جب کسی بندے پر رحم کرنا چاہے گا، تو اپنے جس بندے کی عزت افزائی کرنا چاہے گا، اسے اس کے حق میں شفاعت کی اجازت دے دے گا۔ اجازت ملنے سے پہلے کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ پھر فرمایا: ﴿ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ ’’وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔‘‘ یعنی ان کے گزشتہ اور آئندہ معاملات سے باخبر ہے۔ یعنی وہ تمام معاملات کی تمام تفصیلات جانتا ہے، یعنی اگلے پچھلے، ظاہر، پوشیدہ، غیب اور حاضر سب جانتا ہے۔ بندوں کو ان میں کوئی اختیار حاصل نہیں، نہ وہ ذرہ برابر معلومات رکھتے ہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ خود بتا دے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیزکا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی کی وسعت نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے۔‘‘ اس سے اس کی عظمت کا کمال اور سلطنت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ جب کرسی کی یہ شان ہے کہ آسمان و زمین کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وہ ان سے بہت بڑی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کی سب سے بڑی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی اس سے بڑی مخلوق بھی موجود ہے۔ یعنی عرش اور ایسی مخلوقات جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ان مخلوقات کی عظمت کا تصور کرنے سے بھی عقلیں عاجز ہیں تو ان کے خالق کی عظمت کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ جس نے انھیں وجود بخشا، اور ان میں بے شمار حکمتیں اور اسرار رکھ دیے۔ جس نے زمین و آسمان کو اپنی جگہ چھوڑنے سے روک رکھا ہے اور وہ اس سے تھکتا نہیں، اس لیے فرمایا: ﴿وَلَا یَـــُٔوْدُهٗ حِفْ٘ظُهُمَا﴾ ’’اور نہ وہ ان دونوں کی حفاظت سے تھکتا ہے۔‘‘ یعنی اس کے لیے ان کی حفاظت دشوار نہیں ﴿وَهُوَ﴾ ’’اور وہ‘‘ اپنی ذات کے لحاظ سے ﴿ الْ٘عَلِیُّ﴾ ’’بہت بلند‘‘ ہے۔ او رعرش عظیم پر موجود ہے۔ وہ اس لیے بھی بلند ہے کہ تمام مخلوقات اس کے زیر نگیں ہیں، اس لیے بھی بلند شان والا ہے کہ اس کی صفات کامل ہیں۔ اور ﴿ الْعَظِیْمُ﴾ ’’بہت بڑا ہے۔‘‘ جس کی عظمت کے سامنے کسی بڑے سے بڑے جبار، متکبر اور زبردست بادشاہوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس آیت میں توحید الوہیت بھی ہے، توحید ربوبیت بھی اور توحید اسماء و صفات بھی۔ اس میں اس کی بادشاہت کا محیط ہونا بھی مذکور ہے اور علم کا بھی، اس کی سلطنت کی وسعت بھی ہے اس کا جلال، مجد اور اس کی عظمت و کبریائی کابھی بیان ہے۔ لہٰذا یہ آیت اکیلی ہی اللہ کے تمام اسماء و صفات اور تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی کی جامع ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے:
Vocabulary
AyatSummary
[255
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List