Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
135
SegmentHeader
AyatText
{252} {تلك آيات الله نتلوها عليك بالحق وإنك لمن المرسلين}؛ ومن جملة الأدلة على رسالته هذه القصة حيث أخبر بها وحياً من الله مطابقاً للواقع. وفي هذه القصة عِبَرٌ كثيرةٌ للأمة: منها: فضيلة الجهاد في سبيله وفوائده وثمراته وأنه السبب الوحيد في حفظ الدين وحفظ الأوطان وحفظ الأبدان والأموال، وأنَّ المجاهدين ولو شقت عليهم الأمور فإن عواقبهم حميدة، كما أن الناكلين ولو استراحوا قليلاً فإنهم سيتعبون طويلاً. ومنها: الانتداب لرياسة من فيه كفاءة وأن الكفاءة ترجع إلى أمرين: إلى العلم الذي هو علم السياسة والتدبير، وإلى القوة التي ينفذ بها الحق، وأن من اجتمع فيه الأمران فهو أحق من غيره. ومنها: الاستدلال بهذه القصة على ما قاله العلماء أنه ينبغي للأمير للجيوش أن يتفقدها عند فصولها؛ فيمنع من لا يصلح للقتال من رجال وخيل وركاب، لضعفه أو ضعف صبره أو لتخذيله أو خوف الضرر بصحبته، فإن هذا القسم ضرر محض على الناس. ومنها: أنه ينبغي عند حضور البأس تقوية المجاهدين وتشجيعهم وحثهم على القوة الإيمانية والاتِّكال الكامل على الله والاعتماد عليه، وسؤال الله التثبيت والإعانة على الصبر والنصر على الأعداء. ومنها: أن العزم على القتال والجهاد غير حقيقته، فقد يعزم الإنسان ولكن عند حضوره تنحل عزيمته، ولهذا من دعاء النبي - صلى الله عليه وسلم -: «أسألك الثبات في الأمر والعزيمة على الرشد» ، فهؤلاء الذين عزموا على القتال وأتوا بكلام يدل على العزم المصمم لما جاء الوقت نكص أكثرهم، ويشبه هذا قوله - صلى الله عليه وسلم -: «وأسألك الرضا بعد القضا» ؛ لأن الرضا بعد وقوع القضاء المكروه للنفوس هو الرضا الحقيقي.
AyatMeaning
[252] پھر فرمایا: ﴿تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں، جنھیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پرپڑھتے ہیں۔‘‘ یعنی ایسی سچائی کے ساتھ جس میں کوئی شک نہیں، جو اعتبار اور بصیرت کوبھی متضمن ہے اور بیان حقائق امور کو بھی۔ ﴿ وَاِنَّكَ لَ٘مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔‘‘ اس میں اللہ کی طرف سے اس کے رسول کے لیے رسالت کی گواہی ہے۔ آنحضرتeکی رسالت کے دلائل میں انبیائے سابقین، ان کے متبعین اور مخالفین کے ان واقعات کا بیان بھی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپeکو نہ بتاتا تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ بلکہ آپ کی پوری قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہوتا جس کو ان واقعات کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ اللہ کے سچے رسول اور نبی ہیں۔ جو حق لے کر آئے ہیں آپeکا دین بھی سچا ہے جسے اللہ تعالیٰ تمام ادیان پر غالب کرنے والا ہے۔ اس قصہ میں بہت سی نصیحت آموز نشانیاں ہیں جن سے اہل علم کو نصیحت حاصل ہوتی ہے، مثلاً (۱) پہلی بات یہ ہے کہ اہل حل و عقد کا جمع ہوکر یہ غوروفکر کرنا کہ ان کے معاملات کس طریقے سے سدھر سکتے ہیں اور پھر ان تجاویز پر عمل کرنا ترقی اور حصول مقصود کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جیسے ان سرداروں نے اپنے نبی سے بادشاہ مقرر کردینے کی درخواست کی تاکہ وہ متحد اور متفق رہیں اور ایک بادشاہ کا حکم مانیں۔ (۲) جب حق کی مخالفت کی جائے اور اس پر شبہات وارد کیے جائیں تو اس سے حق زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں یقین تام حاصل ہوجاتا ہے،جیسے ان لوگوں نے طالوت کے بادشاہت کا مستحق ہونے پر اعتراض کیا، تو انھیں ایسے جواب دیے گئے کہ وہ مطمئن ہوگئے اور شک و شبہ ختم ہوگیا۔ (۳) حکومت کو کمال تب حاصل ہوتا ہے جب حاکم علم و عقل بھی رکھتا ہو اور نافذ کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو۔ ان میں سے کسی ایک شرط کا یا دونوں شرطوں کا فقدان سلطنت کے نقصان کا باعث ہے۔ (۴) اپنے آپ پر اعتماد کرنے سے ناکامی حاصل ہوتی ہے اور صبر پر قائم رہتے ہوئے اللہ سے مدد مانگنا اور اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ پہلی صورت کی مثال ان کا اپنے نبی سے یہ کہنا ہے: ﴿ وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآىِٕنَا ﴾ ’’بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیے گئے ہیں۔‘‘ اس کا نتیجہ ہوا کہ جب جہاد کا حکم ہوا تو وہ منہ موڑ گئے۔ دوسری صورت کی مثال اللہ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْ٘صُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی! اے پروردگار! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو شکست ہوگئی۔ (۵) اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ پاک کو ناپاک سے، سچے کو جھوٹے سے، ثابت قدمی والے کو بزدل سے ممتاز اور الگ کردے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ملے جلے اور غیر نمایاں نہیں رہنے دیتا۔ (۶) اللہ کی رحمت اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کافروں اور منافقوں کے شر کو مجاہد مومنوں کے ذریعے سے دور کردیتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو زمین میں کافروں کا غلبہ ہوتا، اور کافرانہ طور طریقے ہر جگہ پھیل جاتے۔ جس سے زمین فساد سے بھرجاتی۔
Vocabulary
AyatSummary
[252
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List