Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
29
SuraName
تفسیر سورۂ عنکبوت
SegmentID
1136
SegmentHeader
AyatText
{10 ـ 11} لما ذكر تعالى أنَّه لا بدَّ أن يَمْتَحِنَ من ادَّعى الإيمان؛ ليظهر الصادقُ من الكاذب؛ بيَّن تعالى أنَّ من الناس فريقاً لا صبر لهم على المحن ولا ثبات لهم على بعض الزلازل، فقال: {ومن الناس مَن يقولُ آمنَّا بالله فإذا أوذي في الله}: بضربٍ أو أخذِ مال أو تعييرٍ؛ ليرتدَّ عن دينه، وليراجع الباطل؛ {جَعَلَ فتنةَ الناس كعذابِ الله}؛ أي: يجعلها صادةً له عن الإيمان والثبات عليه؛ كما أنَّ العذاب صادٌّ عما هو سببه. {ولَئِن جاء نصرٌ من ربِّك ليقولنَّ إنَّا كنَّا معكم}: لأنَّه موافقٌ للهوى. فهذا الصنف من الناس من الذين قال الله فيهم: {ومن الناس من يعبدُ الله على حرفٍ فإنْ أصابَه خيرٌ اطمأنَّ به وإنْ أصابَتْه فتنةٌ انقلبَ على وجهِهِ خسر الدنيا والآخرة ذلك هو الخسران المبين}. {أو ليسَ الله بأعلَمَ بِمَا في صُدُورِ العَالَمِينَ}: حيث أخبركم بهذا الفريق الذي حالُه كما وَصَفَ لكم، فتعرِفون بذلك كمالَ علمهِ وسعةِ حكمتِهِ. {ولَيَعلَمَنَّ الله الذِينَ آمَنُوا ولَيَعلَمَنَّ المُنَافِقِينَ}؛ أي: فلذلك قَدَّرَ مِحَناً وابتلاءً؛ ليظهر علمه فيهم، فيجازيهم بما ظهر منهم، لا بما يعلمه بمجرَّده؛ لأنَّهم قد يحتجُّون على الله أنهم لو ابْتُلوا لَثَبَتوا.
AyatMeaning
[11,10] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ اس شخص کی آزمائش ہونا لازمی ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق ظاہر ہو جائے تو یہ بھی واضح کر دیا کہ لوگوں میں سے ایک گروہ محن و ابتلا پر صبر نہیں کر سکتا بعض تکلیفوں اور مصیبتوں پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ ﴾ ’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور جب ان کو اللہ (کے راستے) میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘ مار کر مال چھین کر اور عار دلا کر اسے اذیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے دین کو چھوڑ کر باطل کی طرف لوٹ آئے ﴿ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ﴾ ’’تو لوگوں کی تکلیف (یوں ) سمجھتے ہیں جیسے اللہ کا عذاب۔‘‘ لوگوں کی ایذا رسانی انھیں متزلزل کر کے ایمان سے روک دیتی ہے جیسے عذاب انھیں اس چیز سے روک دیتا ہے جو اس عذاب کی باعث بنتی ہے۔ ﴿ وَلَىِٕنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُ٘نَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ﴾ ’’اور اگر تمھارے رب کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں ہم تو تمھارے ساتھ تھے۔‘‘ کیونکہ یہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے۔ یہ لوگوں کی اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ نِ اطْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُنِ انْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ (الحج:22؍11) ’’اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر بھلائی پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے اور کوئی مصیبت آ جائے تو الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں ہے اور یہ واضح خسارہ ہے۔‘‘ ﴿ اَوَلَ٘یْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’کیا جو جہاں والوں کے سینوں میں ہے اللہ اس سے واقف نہیں ؟‘‘ اس نے تمھیں اس فریق کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا حال وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وصف بیان فرمایا ہے پس تم اس بات سے اس کے کامل علم اور بے پایاں حکمت کو جان سکتے ہو۔ ﴿ وَلَ٘یَ٘عْلَ٘مَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَ٘یَ٘عْلَ٘مَنَّ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ان کو ضرور معلوم کرلے گا جو (سچے) مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے گا۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آزمائش و ابتلا مقرر کی ہے تاکہ ان کے بارے میں اپنا علم ظاہر کرے اور ان سے جو اعمال ظاہر ہوتے ہیں ان کے مطابق ان کو جزا دے اور مجرد اپنے علم ہی پر ان کو جزاوسزا نہ دے کیونکہ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حجت پیش کریں گے کہ اگر ان کو آزمایا گیا ہوتا تو وہ بھی ثابت قدم رہتے۔
Vocabulary
AyatSummary
[11,
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List