Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
135
SegmentHeader
AyatText
{246 ـ 247} يقص الله تعالى هذه القصة على الأمة ليعتبروا وليرغبوا في الجهاد ولا ينكلوا عنه، فإن الصابرين صارت لهم العواقب الحميدة في الدنيا والآخرة والناكلين خسروا الأمرين، فأخبر تعالى أن أهل الرأي من بني إسرائيل وأصحاب الكلمة النافذة تراودوا في شأن الجهاد واتفقوا على أن يطلبوا من نبيهم أن يعين لهم ملكاً لينقطع النزاع بتعيينه وتحصلَ الطاعة التامة ولا يبقى لقائل مقال، وأن نبيهم خشي أن طلبهم هذا مجردُ كلام لا فعل معه، فأجابوا نبيهم بالعزم الجازم وأنهم التزموا ذلك التزاماً تامًّا، وأن القتال متعين عليهم حيث كان وسيلة لاسترجاع ديارهم ورجوعهم إلى مقرهم ووطنهم، وأنه عين لهم نبيهم طالوت ملكاً يقودهم في هذا الأمر الذي لا بد له من قائد يحسن القيادة، وأنهم استغربوا تعيينه لطالوت وثَمَّ من هو أحق منه بيتاً وأكثر مالاً، فأجابهم نبيهم: إن الله اختاره عليكم بما آتاه الله من قوة العلم بالسياسة وقوة الجسم، اللذين هما آلة الشجاعة والنجدة وحسن التدبير، وأن الملك ليس بكثرة المال، ولا بكون صاحبه ممن كان الملك والسيادة في بيوتهم، فالله يؤتي ملكه من يشاء. ثم لم يكتف ذلك النبي الكريم بتقنيعهم بما ذكره من كفاءة طالوت واجتماع الصفات المطلوبة فيه حتى قال لهم:
AyatMeaning
[247,246] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ا پنے نبیeکو بنی اسرائیل کے سرداروں کا واقعہ سنایا ہے۔ سرداروں کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عام طورپر سردار ہی اپنے فائدے کے معاملات پر غوروفکر کرتے ہیں تاکہ وہ متفقہ فیصلہ کریں اور دوسرے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ وہ موسیٰu کے بعد مبعوث ہونیوالے اپنے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا: ﴿ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’کسی کو ہمارا بادشاہ بنادیجیے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔‘‘ تاکہ قوم کی شیرازہ بندی ہو اور ہم دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ شاید اس وقت ان کا کوئی متفقہ سردار نہیں تھا۔ جیسے قبائلی معاشرے میں ہوتا ہے کہ کوئی گھرانا یہ پسند نہیں کرتا کہ دوسرے گھرانے کا کوئی آدمی اس پر حاکم مقرر ہوجائے، اس لیے انھوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ایک بادشاہ مقرر کردیا جائے جس پر سب فریق متفق ہوجائیں۔ بنی اسرائیل میں سیاسی رہنمائی انبیائے کرام کا فریضہ تھی۔ جب کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا نبی مقرر فرما دیتا۔ جب انھوں نے اپنے نبی سے یہ بات کہی تو پیغمبر نے کہا: ﴿ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ﴾ ’’ممکن ہے جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔‘‘ یعنی شاید تم ایسی چیز کا مطالبہ کررہے ہو کہ اگر تم پر فرض ہوجائے تو تم اس کو انجام نہ دے سکو۔ نبی کے اس مشورہ کو تسلیم کرلینے میں ان کے لیے عافیت تھی، لیکن انھوں نے اسے قبول کرنے کے بجائے اپنے عزم و نیت پر اعتماد کیا اور بولے: ﴿ وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآىِٕنَا ﴾ ’’بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیے گئے ہیں۔‘‘ یعنی ہمیں جہاد کرنے میں کیا عذر ہوسکتا ہے جبکہ ہمیں اس پر مجبور کردیا گیا ہے کیونکہ ہمیں وطن سے بے وطن کردیا گیا اور بیوی بچوں کو قید کرلیا گیاہے؟ ان حالات میں بھی اگر ہم پر اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہ بھی آئے تب بھی ہمیں لڑنا چاہیے۔ اب جب کہ سب کچھ ہوچکا ہے اور جہاد فرض کردیا جائے تو ہم کیوں نہیں لڑیں گے۔ لیکن ان کی نیتیں درست نہ تھیں اور اللہ پر توکل مضبوط نہیں تھا، اس لیے ﴿ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا﴾ ’’جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سب پھر گئے۔‘‘ انھیں بزدلی کی وجہ سے جہاد کی ہمت نہ ہوئی، وہ دشمن سےٹکر لینے کی جرأت نہ کرسکے۔ ان کا عزم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اکثریت پربزدلی کے جذبات غالب آگئے۔ ﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’سوائے تھوڑے سے لوگوں کے‘‘ جنھیں اللہ نے ثابت قدمی بخشی، ان کے دل مضبوط ہوگئے۔ پس انھوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دشمن سےٹکرانے کا حوصلہ کیا تو انھیں دنیا اور آخرت کی عزت نصیب ہوئی۔ لیکن اکثریت نے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا، اس لیے اللہ تعالیٰ فرتا ہے: ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ ﴿ وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ ﴾ ’’اور ان کے نبی نے (ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے) کہا‘‘ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمھارا بادشاہ بنادیا ہے۔‘‘ یہ نام زدگی اللہ کی طرف سے تھی، لہٰذا ان کا فرض تھا کہ اسے قبول کرتے ہوئے اعتراضات بند کردیتے۔ لیکن انھوں نے اعتراض کردیا، اور کہنے لگے: ﴿ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ﴾ ’’بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت حق دار بادشاہت کے ہم ہیں۔ اسے مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔‘‘ یعنی وہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے جب کہ وہ خاندانی طورپر ہم سے کم تر ہے، پھر وہ غریب اور نادار بھی ہے، اس کے پاس حکومت قائم رکھنے کے لیے مال بھی نہیں۔ ان کی اس بات کی بنیاد ایک غلط خیال پر تھی کہ بادشاہ اور سردار ہونے کے لیے اونچا خاندان اور بہت مالدار ہونا ضروری ہے۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ ترجیح کے قابل اصل صفات زیادہ اہم ہیں، اس لیے ان کے نبی نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’سنو! اللہ تعالیٰ نے اس کو تم پر برگزیدہ کیا ہے۔‘‘ لہٰذا اس کی اطاعت قبول کرنا تمھارا فرض ہے۔ ﴿وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ﴾ ’’اور اسے اللہ نے علمی اور جسمانی برتری بھی عطافرمائی ہے۔‘‘ یعنی اسے عقل اور جسم کی قوت عطا فرمائی ہے۔ اور ملک کے معاملات انھی دو چیزوں کی بنیاد پر صحیح طورپر انجام پاتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ عقل و رائے میں کامل ہو، اور اس صحیح رائے کے مطابق احکام نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، تو درجہ کمال حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو نظام میں خلل آجائے گا۔ اگر وہ جسمانی طورپر طاقت ور ہوا لیکن پورا عقل مند نہ ہوا تو ملک میں غیر شرعی سختی ہوگی اور طاقت کا استعمال حکمت کے مطابق نہیں ہوگا اور اگر وہ معاملات کی پوری سمجھ رکھنے والا ہوا، لیکن اپنے احکام نافذ کرنے کی طاقت سے محروم ہوا، تو اس عقل و فہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جسے وہ نافذ نہ کرسکے۔ ﴿ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کشادگی والا۔‘‘ یعنی بہت فضل و کرم والا ہے اس کی عمومی رحمت کسی کو محروم نہیں رکھتی، بلکہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿ عَلِیْمٌ ﴾ ’’علم والا ہے۔‘‘ وہ جانتا ہے کہ فضل کا صحیح حق دار کون ہے۔ لہٰذا اس پر فضل کردیتا ہے۔ اس کلام سے ان کے دلوں کے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ کیونکہ طالوت میں حکمرانوں والی خوبیاں موجود تھیں، اور اللہ اپنا فضل جسے چاہے دیتا ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔
Vocabulary
AyatSummary
[247
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List