Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 9
- SegmentHeader
- AyatText
- {20} {كلما أضاء لهم}؛ البرق في تلك الظلمات {مشوا فيه وإذا أظلم عليهم قاموا}؛ أي: وقفوا، فهكذا حالة المنافقين إذا سمعوا القرآن، وأوامره ونواهيه، ووعده ووعيده؛ جعلوا أصابعهم في آذانهم، وأعرضوا عن أمره ونهيه، ووعده ووعيده؛ فيروعهم وعيده، وتزعجهم وعوده، فهم يعرضون عنها غاية ما يمكنهم ويكرهونها كراهة صاحب الصيب الذي يسمع الرعد فيجعل أصابعه في أذنيه خشية الموت، فهذا ربما حصلت له السلامة ، وأما المنافقون فأنى لهم السلامة وهو تعالى محيط بهم قدرة وعلماً فلا يفوتونه ولا يعجزونه، بل يحفظ عليهم أعمالهم ويجازيهم عليها أتم الجزاء. ولما كانوا مبتلين بالصمم والبكم والعمى المعنوي ومسدودة عليهم طُرُقُ الإيمان قال تعالى: {ولو شاء الله لذهب بسمعهم وأبصارهم}؛ أي الحسية، ففيه تخويف لهم وتحذير من العقوبة الدنيوية؛ ليحذروا فيرتدعوا عن بعض شرهم ونفاقهم {إن الله على كل شيء قدير}؛ فلا يعجزه شيء، ومن قدرته أنه إذا شاء شيئاً فعله من غير ممانع ولا معارض. وفي هذه الآية وما أشبهها ردٌّ على القدرية القائلين بأن أفعالَهم غير داخلة في قدرة الله تعالى؛ لأن أفعالهم من جملة الأشياء الداخلة في قوله: {إن الله على كل شيء قدير}.
- AyatMeaning
- [20] ﴿کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ﴾ یعنی اس بجلی کی چمک جب اندھیرے میں روشنی کرتی ہے۔ ﴿مَشَوْا فِیْهِ وَاِذَا اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا﴾ ’’تو چلتے ہیں اس میں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘ یعنی وہ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پس اسی قسم کی حالت منافقین کی ہے جب وہ قرآن مجید، اس کے اوامر و نواہی اور اس کے وعد و وعید سنتے ہیں تو اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ اس کے اوامر و نواہی اور وعد و وعید سے اعراض کرتے ہیں وعید ان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرتی ہے اور اس کے وعدے ان کو پریشان کر دیتے ہیں۔ وہ حتیٰ الامکان ان سے اعراض کرتے ہیں اور اس شخص کی مانند اسے سخت ناپسند کرتے ہیں جو سخت بارش میں گھرا ہوا بجلی کی کڑک سنتا ہے اور موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے اس شخص کو تو بسا اوقات سلامتی اور امن مل جاتا ہے۔ مگر منافقین کے لیے کہاں سے سلامتی آئے گی؟ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہ اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے اور نہ وہ اس کو عاجز کر سکتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اعمال ناموں میں محفوظ کر دیتا ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ چونکہ وہ معنوی بہرے پن، گونگے پن اور اندھے پن میں مبتلا ہیں اور ان پر ایمان کی تمام راہیں مسدود ہیں اس لیے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہے تو لے جائے ان کے کان اور ان کی آنکھیں‘‘ یعنی ان کی حس سماعت اور حس بصارت سلب کر لے۔ اس آیت کریمہ میں ان کو دنیاوی سزا سے ڈرایا گیا ہے تاکہ وہ ڈر کر اپنے شر اور نفاق سے باز آجائیں۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اس لیے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ کوئی اس کو روکنے والا اور اس کی مخالفت کرنے والا نہیں۔ اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات میں قدریہ کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل نہیں ہیں، کیونکہ انسانوں کے افعال بھی من جملہ ان اشیاء کے ہیں جو ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ کے تحت، اس کی قدرت میں داخل ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [20]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF